کابل،2مئی(ایس او نیوز/آئی این ایس انڈیا)شدت پسند تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے ٹھکانوں پر دنیا کے سب سے بڑے غیر جوہری بم سے حملے اور اس گروپ کے رہنماؤں کو نشانہ بنانے کی امریکی کوششیں ظاہر کرتی ہیں کہ واشنگٹن افغانستان میں داعش کا قدرے جلد خاتمہ چاہتا ہے۔اس موضوع پر امریکی دارالحکومت واشنگٹن سے منگل دو مئی کے روز نیوز ایجنسی اے ایف پی نے اپنے ایک تفصیلی جائزے میں لکھا ہے کہ امریکا کو خدشہ ہے کہ اس سے پہلے کہ شام اور عراق جیسے خانہ جنگی اور بحرانوں کے شکار ملکوں سے ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے مزید جنگجو افغانستان پہنچا شروع ہو جائیں، ہندوکش کی اس ریاست میں داعش کو زیادہ سے زیادہ عسکری نقصان پہنچا کو اس شدت پسند گروہ کو جلد از جد ختم کرنے کی کوشش کی جانا چاہیے۔
افغانستان میں امریکا اور کابل حکومت کے دستے 2001ء سے طالبان عسکریت پسندوں کے خلاف مسلح جنگ میں مصروف ہیں لیکن اسی دوران ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش کی ایک مقامی شاخ ’اسلامک اسٹیٹ خراسان‘ یا ISIS۔K کے نام سے مشرقی افغانستان میں اپنے قدم جما چکی ہے۔ہندوکش کے عشروں سے بدامنی اور خانہ جنگی کے شکار اس ملک میں ’داعش خراسان‘ نامی مقامی شدت پسند گروہ پہلی بار 2015ء میں منظر عام پر آیا تھا، جب اس گروپ کے جنگجوؤں نے پاکستان کے ساتھ سرحد کے قریب افغان صوبوں کنڑ اور ننگرہار کے وسیع تر علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا۔
افغان تنازعے میں داعش کی اس مقامی شاخ کا کردار اس لیے زیادہ تر پس منظر میں رہا کہ کابل حکومت اور اس کے اتحادی امریکا کی فوجی توجہ کا مرکز افغان طالبان کے خلاف زمینی اور فضائی کارروائیاں بنی رہی تھیں۔بہت سے امریکی شہریوں نے افغانستان میں داعش کے خراسان نامی گروپ کا نام پہلی بار اس وقت سنا تھا، جب گزشتہ ماہ امریکا نے افغان صوبے ننگرہار میں اس شدت پسند گروپ کے کئی سرنگوں پر مشتمل ایک بڑے زیر زمین ٹھکانے پر دنیا کے اس سب سے بڑے غیر جوہری بم سے فضائی حملہ کیا تھا، جسے ’تمام بموں کی ماں‘ کہا جاتا ہے۔
افغانستان میں امریکی فوج کے ترجمان کیپٹن بل سالوِن کے مطابق ماضی میں اس ملک میں داعش کے عسکریت پسندوں کی زیادہ سے زیادہ تعداد ڈھائی ہزار اور تین ہزار کے درمیان رہی ہے لیکن عسکری محاذ پر ناکامیوں، بہت زیادہ جانی نقصان اور جنگجوؤں کی طرف سے ہمدردیوں کی تبدیلی کے باعث اب وہاں داعش کے جنگجوؤں کی مجموعی تعداد زیادہ سے زیادہ بھی محض 800 کے قریب رہ گئی ہے۔