ہانگ جو4ستمبر(ایس او نیوز؍آئی این ایس انڈیا)جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے ترک صدر رجب طیب ایردوآن سے ملاقات میں دو طرفہ باہمی امور پر تبادلہ خیال کیا ہے۔ یہ ملاقات جی ٹوئنٹی سمٹ کے موقع پر چینی شہر ہانگ جو میں ہوئی۔خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے بتایا ہے کہ جرمن چانسلرانگیلا میرکل اور ترک صدر رجب طیب ایردوآن کی ملاقات میں دونوں رہنماؤں نے حالیہ دنوں میں پیدا ہونے والی کشیدگی کے خاتمے کی کوشش کی ہے۔ اس دوران میرکل اور ایردوآن نے ترکی میں فوجی بغاوت کی ناکام کوشش اور مہاجرین کے بحران پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔جرمن حکومت کی ایک خفیہ دستاویز میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ترک صدر ایردوآن کے فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کے ساتھ قریبی رابطے ہیں۔ اسی دستاویز میں جرمنی میں ایردوآن کے حامیوں کی لابی سرگرمیوں کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ جرمن پارلیمان نے مئی میں ایک قرارداد کے تحت سن1915ء میں سلطنتِ عثمانیہ کی افواج کے ہاتھوں 1.5 ملین آرمینیائی باشندوں کے قتلِ عام کو نسل کُشی قرار دے دیا تھا، جس پر انقرہ حکومت کی طرف سے شدید ردعمل سامنے آیا تھا۔ ترکی ہمیشہ سے اس امر کی تردید کرتا رہا ہے کہ پہلی عالمی جنگ کے دوران آرمینیائی باشندوں کا قتل عام نسل کُشی کے زمرے میں آتا ہے۔یہ قرار داد ایک ایسے وقت میں منظور ہوئی تھی، جب انقرہ اور برلن حکومت کے مابین یورپ کو درپیش مہاجرین کے بحران، ترکی کی یورپی یونین میں رکنیت کے حصول کی کوششوں اور دیگر متعدد سیاسی اور سماجی امور پر غیر معمولی کشیدگی پائی جا رہی تھی۔
برلن حکومت کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ اس تازہ ملاقات میں دونوں رہنماؤں نے مہاجرین کے بحران پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ بتایا گیا ہے کہ میرکل اور ایردوآن نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ یورپ کو درپیش مہاجرین کے شدید بحران کے حل میں تعاون کا سلسلہ جاری رہے گا۔ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد دونوں رہنماؤں نے پہلی مرتبہ دوبدو ملاقات کی ہے۔ چینی شہر ہانگ جو میں جی ٹوئنٹی سمٹ کے حاشیے میں ہونے والی اس ملاقات سے قبل میرکل کئی مرتبہ ٹیلی فون پر ایردوآن سے بات چیت کر چکی تھیں۔جولائی میں ترک فوج کے ایک گروہ کی طرف سے ایردوآن حکومت کا تختہ اُلٹنے کی کوشش کی گئی تھی، تاہم عوام اور ایردوآن کی حامی افواج نے اس کوشش کو ناکام بنا دیا تھا۔ بعد ازاں انقرہ حکومت نے باغی عناصر کے خلاف حکومتی کریک ڈاؤن شروع کر دیا تھا، جس کے نتیجے میں ہزاروں افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔یورپی یونین نے متعدد مرتبہ کہا ہے کہ ترک حکومت اس ناکام بغاوت کے بعد اپنے کریک ڈاؤن میں قانون کی بالادستی کا خیال رکھے۔ کئی حلقوں کی طرف سے ایسے خدشات کا اظہار بھی کیا گیا ہے کہ ترک صدر ایردوآن اس کریک ڈاؤن کے تحت اپنے سیاسی مخالفین کو بھی اپنے راستے سے ہٹانے کی کوشش میں ہیں۔ اس طرح ترکی اور یورپی یونین کے مابین اس حوالے سے بھی ایک تناؤ کی کیفیت دیکھی جا رہی ہے۔