لکھنؤ، 28؍مارچ (ایس او نیوز/آئی این ایس انڈیا )پہلے حکومت اور تنظیم میں تسلط کو لے کر سماجوادی کنبے میں ’مہاسنگرام‘چھڑا اور اب پارٹی کی باگ ڈور کو لے کر نئے سرے سے اختلافات کی آہٹ سنائی دینے لگی ہے۔آج اکھلیش خیمے نے میٹنگ بلائی تھی ،جس میں نہ ملائم پہنچے اور نہ ہی شیو پال اور اعظم خان ۔اس کے علاوہ کل ہونے والی ملائم سنگھ خیمے کی میٹنگ بھی فی الحال منسوخ کر دی گئی ہے۔کنبے میں اختلافات کی بات کو اس لیے بھی ہوا دی جا رہی ہے کیونکہ کہ اکھلیش کو جہاں اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کے انتخاب کا حق دیا گیا ہے، تو انہوں نے رام گوند چودھری کو اسمبلی میں اپوزیشن کا لیڈر مقرر کردیا ، جبکہ ملائم سنگھ اعظم خان کو اپوزیشن لیڈر بنانا چاہتے تھے۔خاندان میں اختلاف کا ہی نتیجہ ہے کہ سماجواد ی پارٹی اپنے قیام کے بعد کے سب سے نچلے پائیدان پر پہنچ چکی ہے۔
اس کے صرف 47ممبر اسمبلی جیت سکے۔اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کے انتخاب کو لے کر کنبے میں پھر داؤ پیچ شروع ہوگیاہے ، ملائم ، شیو پال یادو خیمہ اعظم خاں کو اپوزیشن لیڈر بنانے چاہ رہا تھا، شاید ان کے حق میں ممبران اسمبلی کا من بنانے کے لیے ملائم سنگھ یادو نے نو منتخب ممبران اسمبلی کو 29؍مارچ کو مدعو کیا ہے، مگر اکھلیش یادو نے اسمبلی کے اجلاس میں اراکین اسمبلی سے میٹنگ کے حق کا استعمال کرتے ہوئے 27؍مارچ کو ہی رام گوند چودھری کو اپوزیشن لیڈر مقرر کر دیا۔ملائم سنگھ یادو منگل کو وکرمادتیہ مارگ پر واقع پارٹی دفتر میں اراکین اسمبلی کے ساتھ میٹنگ کریں گے۔ملائم کی طرف سے منعقد میٹنگ سے پہلے ہی اپوزیشن لیڈر کی تقرری موجودہ سیاسی حالات میں اکھلیش یادو کا دور رس سیاسی داؤ ہو سکتا ہے، مگر خاندان کے اندر سلگ رہے اختلاف کے شعلے کو ہوا دینا والا ہو سکتا ہے۔ملائم شیوپال کو اعتماد میں لیے بغیر ایس پی کے آئین میں ترمیم بھی اختلاف کی ایک سبب بن سکتی ہے۔دلیل یہ بھی ہے کہ انتخابات کے وقت اکھلیش یادو نے کہا تھا کہ تین ماہ کا وقت مانگا ہے، حکومت بنا کر سبھی عہدے اور اختیارات نیتا جی کو سونپ دوں گا۔
لیکن اکھلیش اس وعدے کو پورا نہیں کر پائے، البتہ ایس پی کے آئین میں ترمیم کر کے نئے عہدے پیدا کر دیئے گئے۔ان فیصلوں کے پیش نظر یہ کہا جا رہا ہے کہ ستمبر میں کنبے میں ہوئے اختلافات کے دوران ثالثی کا رول نبھانے والے اعظم خاں اس بار غیر جانبدار رہ سکتے ہیں ،اس سے اکھلیش کے فیصلوں سے ناخوش خیمے کو تقویت مل سکتی ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ اس بار اندرونی رسہ کشی اگر سڑک پر آئی ،تو خاندان کے کچھ رکن نئے سیاسی دروازے کھٹکھٹا سکتے ہیں ۔