اسلام آباد،27مارچ(ایس او نیوز/آئی این ایس انڈیا)سوشل میڈیا پر اسلام کے بارے میں گستاخانہ مواد کی مبینہ اشاعت کے خلاف اسلام آباد کی ہائی کورٹ میں مقدمے کی سماعت کے دوران وفاقی حکومت نے موقف اختیار کیا ہے کہ سوشل میڈیا پر پابندی اس مسئلے کا حل نہیں ہے۔اس درخواست کے مدعی کا کہنا ہے کہ اگر حکومت اس مواد کو سوشل میڈیا سے ہٹانے میں ناکام رہتی ہے تو پاکستان میں سوشل میڈیا تک رسائی پر پابندی عائد کی جائے۔
حکومت پاکستان کی جانب سے اس نکتے کا جواب دیتے ہوئے وزارت داخلہ کے سیکریٹری عارف خان نے عدالت کو بتایا کہ گستاخانہ مواد پر مبنی 85 فیصد مواد ہٹایا جا چکا ہے جبکہ 40 سوشل میڈیا صفحات کو ہٹانے کے لیے کارروائی جاری ہے۔تاہم انھوں نے واضح کیا کہ فیس بک پر پابندی گستاخانہ مواد روکنے کا حل نہیں ہے کیونکہ فیس بک پر موجود مواد مختلف ویب سائٹوں سے منسلک ہے جس کو مکمل طور پر ختم کرنا اس وقت تک تقریباً ناممکن ہے جب تک ملک بھر سے انٹرنیٹ کو بند نہ کر دیا جائے۔
گذشتہ سماعت پر جسٹس شوکت صدیقی نیکہا تھا کہ اگر فیس بک گستاخانہ مواد بلاک نہیں کرتا تو ملک میں فیس بک پر پابندی کا حکم دیا جا سکتا ہے۔تاہم پیر کو ہونے والی سماعت کے دوران عدالت نے مختلف محکموں کی جانب سے گستاخانہ مواد کی نشاندہی اور اس کو ہٹانے کے لیے اب تک کیے جانے والے اقدامات پر اطمینان کا اظہار کیا۔
وزارت داخلہ کے سیکریٹری نے عدالت کو بتایا کہ گذشتہ جمعے کو ایف آئی اے نے مختلف علاقوں سے تین افراد کو گرفتار کیا ہے جن میں سے کم از کم دو 'براہ راست طور پر گستاخانہ مواد شائع کرنے میں ملوث پائے گئے ہیں۔انھوں نے عدالت کو بتایا کہ واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے نے یہ معاملہ اٹھایا ہے، جبکہ 27 ممالک کے سفیر ہماری دعوت پر آئے اور بین الاقوامی سطح پر معاملے کو اٹھانے پر اتفاق ہوا۔ جس پر جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس دیے کہ اسلامی سفیروں کا اجلاس بلانا خوش آئند ہے لیکن جس ملک میں یہ سب کچھ ہو رہا ہے کیا اس کے سفیر کو بھی بلانے کی ہمت ہے؟۔
جسٹس شوکت نے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزیر پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ انوشہ رحمان اور وفاقی وزیر برائے مذہبی امور بتائیں کہ معاملہ ابھی تک حل کیوں نہیں ہوا۔پیر کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں گستاخانہ مواد ہٹانے کے مقدمہ کی سماعت کے دوران کمرہ عدالت کچھا کھچ بھرا ہوا تھا جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے اپنے دلائل میں کہا کہ آئندہ پیشی پر چاروں بلاگروں کی رہائی کی تفصیلی رپورٹ عدالت میں پیش کی جائے۔