واشنگٹن،یکم اپریل(ایس او نیوز/آئی این ایس انڈیا)کبھی پولیس انہیں لاٹھی چارج اور کتوں کی مدد سے واپس دھکیلتی ہے تو کبھی انسانوں کے اسمگلر ان سے پیسے چھین کر انہیں تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔ سربیا میں پھنسے تارکین وطن کے لیے یہ باتیں معمول بن چکی ہیں۔یورپی یونین کی حدود میں داخل ہونے کے خواہش مند ایسے ہزاروں تارکین وطن ’بلقان روٹ‘ بند ہونے کے بعد سے سربیا میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق سربیا میں آٹھ ہزار سے زائد تارکین وطن کو باقاعدہ شمار کیا جا چکا ہے۔ ان میں سے اکثریت کا تعلق افغانستان، پاکستان اور مشرق وسطیٰ کے جنگ زدہ ممالک عراق اور شام سے ہے۔یورپ میں پناہ کے متلاشی یہ لوگ اقوام متحدہ اور سربیا کی حکومت کی جانب سے بنائے گئے کیمپوں میں بھی رہ رہے ہیں لیکن ہزاروں ایسے بھی ہیں جنہیں مشرقی یورپ کی شدید سردی میں بھی کھلے آسمان تلے رہنا پڑ رہا ہے۔
مغریی یورپ نہ پہنچ سکنے اور سربیا کے حالات سے مایوس ان تارکین وطن میں پائی جانے والی بے چینی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کے اثرات کبھی مہاجرین کے باہمی جھگڑوں کی صورت میں دکھائی دیتے ہیں تو کبھی دشوار گزار اور کڑی نگرانی والی سرحد عبور کرنے کی کوشش میں ہلاک ہو جانے کی صورت میں۔ایسی کوششوں کے دوران انہیں سکیورٹی فورسز کی جانب سے بھی سختی اور تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان سے تعلق رکھنے والا اکیس سالا نجم خان بھی بلغراد کے ایک پارک میں پناہ لیے ہوئے ہے اور کئی مرتبہ یورپی یونین کی حدود میں داخل ہونے کی کوشش کر چکا ہے۔ نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے نجم خان کا کہنا تھا، ’’میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ یورپی پولیس اتنی ظالم ہو سکتی ہے۔‘‘