نئی دہلی، 17؍ستمبر(ایس او نیوز ؍آئی این ایس انڈیا )مرکزی حکومت خواتین کے حقوق کی بنیاد پر ایک ساتھ تین طلاق کے اسلامی نظام کی سپریم کورٹ میں مخالفت کرے گی اور اس بات پر زور دے گی کہ اس مسئلے کو یکساں سول کوڈ کے چشمہ سے نہیں دیکھا جانا چاہیے ۔وزارت قانون اس مسئلے پر اس ماہ کے آخر میں جامع جواب داخل کرے گی ۔اس معاملے پر داخلہ، خزانہ اور خواتین واطفال فلاح وبہبود کی وزارتوں سمیت بین وزارتی سطح پر غور کیا جا رہا ہے۔حکومت کے ایک سینئر افسر نے کہاکہ ہمیں اس کو یکساں سول کوڈ کے چشمہ سے نہیں دیکھنا چاہیے ۔ہمیں خواتین کے حقوق کے تناظر میں بات کرنے کی ضرورت ہے، ہمارا جواب صرف حقوق پر مرکوز رہنے والا ہے۔کسی خاتون کے حقوق ناگزیر ہیں اور آئین کے مطابق اس کو مردوں کے مساوی حقوق حاصل ہیں۔انہوں نے کہاکہ عدالت کا ہر فیصلہ ہمیں آہستہ آہستہ ان یکساں حقوق کی طرف لے جا رہا ہے۔ایک ساتھ تین طلاق کی روایت پاکستان اور بنگلہ دیش میں بھی نہیں ہے، یہ صرف ہمارے یہاں ہے۔وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ، وزیر خزانہ ارون جیٹلی، وزیر دفاع منوہر پاریکر اورخواتین واطفال کی فلاح وبہبود کی وزیر مینکا گاندھی نے گزشتہ ہفتے اس پر بحث کے لیے میٹنگ کی تھی کہ تعددازدواج ، ایک ساتھ تین طلاق(طلاق بدعت)اور حلالہ کی اسلامی روایات کے معاملے پر سپریم کورٹ میں حکومت کا کیا موقف ہو گا ۔ذرائع کے مطابق حکومت کے تمام سینئر وزراء کے درمیان اس بات کو لے کر رضامندی تھی کہ اس پیچیدہ مسئلے کو جنسی حقوق کے چشمہ سے دیکھا جانا چاہیے ۔سپریم کورٹ نے اس ماہ کے شروع میں تین طلاق کے معاملے پر دائر درخواستوں پر جواب دینے کے لیے مرکزی حکومت کو چار ہفتوں کا وقت دیا تھا۔ان درخواستوں میں اتراکھنڈ کی خاتون سائرہ بانو کی درخواست بھی شامل ہے، جنہوں نے تعددازدواج ، ایک ساتھ تین طلاق(طلاق بدعت)اور حلالہ کے اسلامی نظام کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے چیلنج کیا ہے۔آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے اس ماہ کے آغاز میں ملک کی عدالت عظمی سے کہا تھا کہ اصلاحات کے نام پر پرسنل لاء دوبارہ نہیں لکھا جا سکتا۔