یہ ایک تلخ سچائی ہے کہ ملک کوانگریزوں کے تسلط سے آزادی ملنے اور جمہوری نظام حکومت کے قیام کے ساتھ مسلم دشمن قوتیں پچھلے دروازے سے حکومت میں شامل ہوگئی تھیں اور انہوں نے ہمیشہ یہی کوشش کی کہ کسی طرح مذہب اسلام کو ماننے والوں کی زندگی سے اسلامی شعار اور مذہبی آ زادی چھین لی جائے ۔یہ مذموم کوشش آج ہی شروع نہیں ہوئی ہے ،بلکہ مذہب کی بنیاد پر امتیاز اورتقسیم کا یہ منصوبہ ازادی کے بعد سے شروع ہوگیاتھااورسیکولر جماعتوں میں شامل فسطائی ذہنیت کے حامل لوگ اپنے طور پر مسلمانوں کے خلاف سرگرم ہوگئے تھے۔ اس کی ابتدا تو سیکور اقدار کی حامل جماعتو ں کے دور اقتدار میں ہی ہوگیا تھا،البتہ بی جے پی کے زیر قیادت این ڈی اے حکومت کی تشکیل کے بعد وہی منظم سازشیں جو پس دیوارتیار ہوتی تھیں ،وہ اب دن کے اجالے میں انجام دی جارہی ہیں۔اس کی تازہ ترین مثال یہ ہے کہ عدالت کی ہدایت پر ملک میں یکساں سول کوڈ کے نفاذ کے امکانات کا جائزہ لینے کیلئے ایک کمیٹی قائم کی گئی ہے جو اب فعال طریقے سے کام کررہی ہے اور اس طرح ملک بھر میں یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی تیاری تقریباً برق رفتا ری کے ساتھ چل رہی ہے۔آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے گزشتہ ہفتہ اس پر اپنی تشاویش ظاہر کی ہیں اور ان دنوں اخبارات میں اس قبیل کی پریس ریلیز دیکھنے اور پڑھنے کوبرابر مل رہی ہیں۔بی جے پی نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ مذکورہ کمیٹی کی تشکیل یو پی اے کے دور حکومت ہی میں کی گئی تھی۔مگر اس کا سیدھا سا جواب یہی ہے کہ مذکورہ کمیٹی کی تشکیل اگرچہ یو پی اے حکومت کے دور میں ہوئی تھی ۔مگر یہ بات جگ ظاہر ہے کہ ملک میں یکساں سول کوڈ کے نفاذ کا پروگرام کسی بھی سیکولر پارٹی کی پالیسی کا حصہ نہیں رہا ہے۔جبکہ بی جے پی اپنے اس ایجنڈے پر شروع سے ہی سرگرم عمل رہی ہے۔آج طلاق یا یوگ کے تعلق سے بی جے پی کی جانب سے جس قسم کی منافرانہ باتیں کھلے عام سننے کو مل رہی ہیں۔ایسا ماضی میں بہت کم دیکھنے کو ملاہے۔اس وقت بی جے پی کے متعصب لیڈران کی زہریلی باتیں اور سنجیدہ دھمکیاں صاف بتار ہی ہیں کہ ان کے ارادے کس قدر نیک ہیں۔بی جے پی نے اس وقت مسئلہ طلاق کو بڑی چالاکی کے ساتھ میڈیا میں اچھا لاجارہا ہے ۔ اس میں شبہ نہیں کہ آلۂ کار کے طور پر اس کے مذموم منصوبے کو عملی شکل دینے میں ہمارے لوگ بھی اپنا کردار ادا کررہے ہیں ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ طلا ق کے نفاذ یا عدم نفاذ کا مسئلہ ہمارے یہاں مختلف فیہ رہا ہے اور ایک مکتبہ فکر اس اختلاف میں تشد د کی حد تک اجماع کے خلاف ہے۔ایسا نہیں ہے کہ مسلمانوں کے مسلکی اختلافات سے غیر مسلم برداران وطن خاص طور پر فسطائی طاقتیں بے بہرہ ہیں ۔انہیں اس بات کا بخوبی علم ہے کہ وہ کون کون سے ایشوز ہیں جو مسلمانوں کے درمیان مختلف فیہ ہیں اور بی جے پی اسی اختلاف کا استعما ل کرکے مسلمانوں میں تفریق کی دیوار کو مضبوط کر رہی ہے ،جس کا ادراک مسلم پرسنل لاء بورڈ شروع سے ہی کرتا رہا ہے۔ آج یوگ میں اسلامی شعار کی خلاف ورزی نہ ہونے کی بات کی جارہی ہے تو کبھی متبنیٰ بل کے معاملے کو ہوا دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔یہ سب صرف باطل قتوں کے ذریعہ ہی انجام نہیں دیا جارہا ہے ،بلکہ اس سازش میں دانستہ یا نادانستہ طور پر ہمارے اپنے بھائی بھی ذمہ داریا ں نبھا رہے ہیں۔یہ سچ ہے کہ ہندوستان میں رہنے بسنے والے تمام مذاہب کے ماننے والوں کو اپنے مذہب پرآئین ہند نے عمل کرنے کی مکمل آ زادی فراہم کی ہے۔مگر آج اس پر شب خون مارنے کی سازش چاروں جانب سے ہورہی ہے۔ شریعت اسلامیہ کے عائلی قوانین اورمذہبی آزادی میں مداخلت کی کوشش پر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے مرکزی حکومت پرزبردست حملہ بولا ہے۔بورڈ کا کہنا ہے کہ بی جے پی پچھلے دروازے سے یکساں سول کوڈ نافذ کرنا چاہتی ہے جس کو قبول نہیں کیا جا سکتا۔بتایا جا رہا ہے کہ مرکزی حکومت کی جانب سے قائم اعلیٰ سطحی کمیٹی نے’’تین طلاق‘‘کو ختم کرنے اورمطلقہ کونان ونفقہ دینے کی سفارش کی ہے۔بی جے پی کا کہنا ہے کہ اس میں بہتری ہونی چاہئے۔آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کا الزام ہے کہ حکومت ہند جائزہ کمیٹی کی آڑ میں یکساں سول کوڈ لاگو کرناچاہتی ہے۔مسلم پرسنل لاء بورڈ کا کہنا ہے کہ کسی بی جے پی لیڈر نے زوردے کر کہا ہے کہ ہم اس کا اطلاق کریں گے، کیونکہ یہ ہمارا ایجنڈہ ہے۔ بی جے پی مسلمانوں میں طلاق کے نظام کو ہی ختم کرنا چاہتی ہے۔وہ ہمارے حقوق پر حملہ کر رہی ہے۔ سرکارمسلمانوں کے مذہبی معاملات میں دخل دے رہی ہے۔شریعت، قرآن اور حدیث پر مبنی ہے۔یہ تبدیلی ہماری مذہبی آزادی کے بھی خلاف ہو جائے گی۔اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کی حکومت ہند سے بس اتنی درخواست ہے کہ ہمارے مذہبی نظام میں دخل نہ دیا جائے۔ہم اس کی مخالفت کریں گے۔اگر تین بار طلاق کہنے یا کئی شادی پر پابندی لگائی جاتی ہے توہم اسے قبول نہیں کریں گے ۔بورڈ کہتا ہیکہ چند لوگوں کی خواہش اور شکایات کی وجہ سے کسی مذہب کے عائلی قوانین کو نہیں بدلا جا سکتا ہے۔بی جے پی سوسائٹی میں پھوٹ ڈالنا چاہتی ہے۔بی جے پی کے قومی ترجمان وجے سونکر شاستری کا کہنا ہے کہ تین طلاق کی رسم مسلمانوں کا کافی بڑا مسئلہ ہے، جس کو جلد حل کیاجاناچاہئے۔انہوں نے کہا کہ کافی وقت سے کئی مسلم تنظیم اور خاتون کارکن اس کے خلاف مطالبہ کرتی رہی ہیں۔اس لئے اس میں تبدیلی ہونی چاہئے۔سونکر شاستری کا کہنا ہے کہ یہ الزام غلط ہے کہ اس کے پیچھے بی جے پی ہے یہ معاملہ تو کورٹ میں چل رہا ہے اور کمیٹی بھی یو پی اے حکومت کے دوران بنی تھی۔انہوں نے کہا کہ ہمارا ایجنڈاتو سب کی ترقی ہے۔غورطلب ہے کہ یہ کمیٹی یو پی اے حکومت کے دوران قائم کی گئی تھی۔بتایا جا رہا ہے کہ کمیٹی کی رپورٹ میں مسلم خواتین کی حالت بہتر بنانے کیلئے بہت سے باتیں کہی گئی ہیں۔ یاد رکھئے کہ انسان چونکہ بہیمت اور ملکوتیت کا مجموعہ ہے، اس وجہ سے اس کے لئے جسمانی و روحانی دونوں طرح کی غذاؤں کا انتظام کیا گیا، انسانوں کی روحانی غذا انبیاء و رسْل کی تعلیمات و پیغامات ہیں اور اب نبی آخر الزماںؐ کی تعلیمات اور ہدایات ہی کا نام ’’شریعتِ اسلامی ‘‘ہے، اور ان کا سمجھنا فقہ کہلاتاہے ، اور ان کو علمی و عملی طور پر بصیرت کے ساتھ سمجھنے والا ، اور ان کی تشریح کرنے والا فقیہ کہلاتا ہے ، شریعتِ اسلامی کا مدار ’’فوز و فلاحِ اخروی‘‘ ہے ،یہی بنیادی فرق ’’اسلامی احکامات اور عدالتوں و اسمبلیوں کے قوانین ‘‘کے مابین ہے، جس کی وجہ سے دنیوی عدالتیں حقوق و احوال کودو حصّوں میں تقسیم کرتی ہیں۔ Law Personal (شخصی و ذاتی قانون)،Common Law(مشترکہ قانون) جو ملک کے تمام باشندوں پریکساں نافذہوتے ہیں، لیکن شریعتِ مطہرہ اس تقسیم کو تسلیم نہیں کرتی، بلکہ شریعت کے احکامات ہمہ جہت وعالمگیر ، اور معاشرت ومعاملات، تہذیب وثقافت، اجتماعی و انفرادی، خانگی و بیرونی، ملکی و ملّی، سیاسی و سماجی الغرض تمام ہائے شعبہ ہائے حیاتِ انسانی کو محیط ہوتے ہیں۔ہمارے ملکِ عزیزمیں بنیادی طور پر رائج سِول کوڈسے دو قسم کے احوال و قوانین نافذ ہوتے ہیں۔ سِول کوڈ جس میں یقینی طور پر Criminal Codeیعنی جرائم پرتادیبی قوانین ملک کے ہر ایک باشندے کے لئے برابر ہیں ، اس میں نسل و رنگ ، مذہب و مسلک، ذات پات کی وجہ سے کوئی تفریق و امتیاز نہیں ہوتا، البتہ سِول کوڈ کا ہی ایک حصہ Personal Lawکہلاتا ہے جو ملک کی مختلف اقلیتوں کو ان کے مذہب کی وجہ سے ملتاہے، جس میں مسلمان بھی شامل ہیں جن کو ان کے مذہبی احکامات کی وجہ سے بعض شعبوں میں اختیارات ملتے ہیں کہ عائلی مسائل، ’’نکاح و طلاق، خلع ، ایلاء و ظہار، وقف ورضاعت‘‘ جیسے معاملات اگر ملکی عدالتوں میں دائر کئے جائیں اور دونوں فریق مسلمان ہوں تو عدالتیں اسلامی قانون کے مطابق ہی فیصلہ کرنے کے پابند ہوں گی۔ انہیں قوانین کے مجموعے کو مسلم پرسنل لاء اور محمڈن لاء کہا جاتا ہے۔ Mohammadan Lawمحمڈن لاء کاثبوت قرآن و حدیث سے ہے، یہ کسی پارلیمنٹ کا پاس کردہ قانون نہیں ہے، لہٰذا محمڈن لاء کسی بھی طرح کی ترمیم و تبدیل کی گنجائش نہیں رکھتا۔کہنے کامطلب یہ ہے کہ بی جے پی کی جانب سے مسلمانوں کی پر امن زندگی کو اتھل پتھل کرنے کی کوشش کیوں کی جارہی ہے۔اگر این ڈی اے بالخصوص وزیر اعظم نریندر مودی مسلمانوں کے سچے ہمدرد ہیں تو انہیں مسلمانوں کی معاشی حالت کو بہتر کرنے کی بات کرنی چا ہئے۔نہ کہ مسلمانوں کو اس قسم کے غیر ضروری مسائل میں الجھا کر پولرائزیشن کی سیاست کیلئے راہیں ہموار کرنی چاہئے۔اس سے صاف ہے کہ وزیر اعظم اور بی جے پی کی نیت میں کھوٹ ہے اور وہ مسلمانوں کو ذہنی طور سے نفسیاتی مریض بناکر حاشیے پر لاکھڑا کرنے کا منصوبہ بنا چکی ہے۔