نئی دہلی، 17/دسمبر (ایس او نیوز /ایجنسی)میں نے ایوان میں راج ناتھ سنگھ اور رجیجو کی تقریر سنی۔ وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کا میں احترام کرتا ہوں، لیکن ان کی تقریر ان کے شایان شان نہیں تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ آئین کی تیاری کسی ایک پارٹی کی کارکردگی کے طور پر نہیں دیکھی جانی چاہئے، جو شاید صحیح ہو، کیونکہ کوئی ایک پارٹی یہ دعویٰ نہیں کر سکتی کہ اس نے اکیلے آئین کا پورا مسودہ تیار کیا ہے۔ نہرو، سردار ولبھ بھائی، ڈاکٹر رادھا کرشنن، سروجنی نائیڈ اور شیاما پرساد مکھرجی سب نے آئین کی تیاری میں مدد کی۔ میرا سوال یہ ہے کہ ایک موقع بتایئے جب آر ایس ایس یا ہندو مہاسبھا نے تعاون کیا ہو؟ آئین کی تیاری میں ان کا کیا کردار ہے؟ پورا ملک راج ناتھ کی تقریر سے خوش ہو سکتا ہے کیونکہ انہوں نے کم از کم ایوان کے اس اجلاس میں یہ بتایا کہ آئین پر پورا بھروسہ ہے، لیکن میں خوش نہیں ہوں کیونکہ راج ناتھ اور رجیجو سمیت حکمران محاذ کی تقریریں ان کے ماضی کے اعمال اور کردار کو مدنظر رکھتے ہوئے منافقت پر مبنی ہیں۔
میں اس کو ثابت بھی کرسکتاہوں۔ کسی زنجیر میں اگر کوئی کمزور کڑی ہوتو وہ مضبوط نہیں ہو سکتی۔ آپ بھلے ہی یہ الزام لگائیں کہ کانگریس نے بابا صاحب امبیڈکر کو وہ مقام نہیں دیا جس کے وہ اہل تھے، ان کی توہین کی گئی، انہیں صحیح وزارت نہیں دی گئی مگر آج ہم یہاں آئین پر بحث کررہے ہیں۔ آپ نے اس آئین کو ٹھیک رکھنے کیلئے کیا کیا ہے؟ آج آپ (حکمراں محاذ) یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ آپ کو آئین اور سیکورلرزم پر گہرااعتماد ہے تو میں آپ (چیئر پرسن) کے توسط سے حکمراں محاذ سے سوال کرنا چاہتا ہوں کہ کیا یہ درست نہیں ہے کہ ملک میں دوسری آئینی پوزیشن کے حامل شخص نے، میں ان کا نام نہیں لینا چاہتا ، حکومت کے ایک پروگرام میں کھلے عام یہ کہا ہے کہ ہم کیشو نند بھارتی کیس کےتحت آئین کا بنیادی ڈھانچہ تبدیل کرنا چاہتے ہیں؟ کیا یہ صحیح نہیں ہے؟ آپ کی پارٹی کے نائب صدر نے ایک انٹرویو میں الیکشن سے پہلے یہ بات کہی ہے اگر ہمیں ۴۰۰؍ سے زیادہ سیٹیں ملیں تو ہم آئین کو بدل دیں گے اور یہ ملک ہندوراشٹر بن جائےگا۔
امبیڈکر کا موقف بہت واضح تھاکہ کسی ملک میں آئین کے ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس ملک میں آئینیت بھی ہے۔ اس حوالے سے بابا صاحب کی تقریر کو ۱۹۷۶ء میں کیشونند بھارتی کیس کو فیصل کرنے کیلئے سپریم کورٹ نے استعمال کیا۔ یہ کیس سپریم کورٹ کی تاریخ میں اب تک کی سب سےبڑی بنچ نے فیصل کیا جو ۱۳؍ ججوں پر مشتمل تھی۔ ۶۸؍ دنوں کی مسلسل شنوائی کے بعد ہزاروں صفحات پر مشتمل فیصلہ سنایاگیا۔ میں نے اس فیصلے کو کئی بار پڑھا ہے۔ کیشونند بھارتی کیس نے ملک کے آئین کے بنیادی ڈھانچے کو طے کیا ہےاور کہا ہے کہ آئین کے تمام التزامات کو بدلا جاسکتاہے مگر اس کے بنیادی ڈھانچے کو نہیں۔ حکمراں محاذ یہ الزام لگانے میں درست ہے کہ آئین میں کئی بار ترمیم کی گئی ہے، یہ ترمیم ضروری تھی مگر یہ دیکھنا ہوگا کہ کیا اس کے بنیادی ڈھانچے کو چھیڑاگیا؟ یہ بات واضح ہے کہ آئین کی روح کو نہیں بدلا جاسکتا۔ کیشو بھارتی کیس میں آئین کے ۶؍ عوامل کی بطور خاص نشاندہی کی گئی۔اول جمہوریت، دوم سیکولرزم، سوم آئین کی حکمرانی، چہارم مساوات، پنجم وفاقیت اور ششم آزاد عدلیہ۔ میں حکمراں محاذ کو آگاہ کردینا چاہتا ہوں کہ آپ آئین کی اِن ۶؍ بنیادوں میں کوئی تبدیلی نہیں کرسکتے۔ پہلے نکتے جمہوریت پر جب ہم بات کرتے ہیں تو آپ ایمرجنسی اور میسا کا حوالہ دیتے ہیں۔ میسا کے وقت صرف جمہوریت کو نقصان پہنچایا گیاتھامگر آج آئین کے تمام ۶؍ بنیادی عوامل جمہوریت، سیکولرزم، آئین کی حکمرانی، مساوات، وفاقیت اور آزاد عدلیہ سب کچھ ختم ہو چکا ہے۔ اس لئے ہم یہاں اس طرف بیٹھے ہوئے، طاقت یا اقتدار کیلئے نہیں۔ ایمرجنسی میں ہمیں یہ ملا کہ آئین میں ترمیم ہوئی اور سیکولر اور سوشلسٹ الفاظ کو شامل کیاگیا جو آج ملک کو آپ کے غلط ہاتھوں سے بچارہاہے۔ ورنہ آپ نے اسے بدل دیا ہوتا۔ فادر اسٹین سوامی کا معاملہ دیکھ لیجئے۔ آپ نے ایک ۸۵؍سال کے بوڑھے کو گرفتار کیا جس نے قبائلیوں کیلئے غیر معمولی خدمات انجام دیں، وہ پارکنسن سے متاثر تھے، انہوں نے ضمانت کیلئے درخواستیں داخل کیں، این آئی اے نے مخالفت کی۔
تیسری مرتبہ ان کی ضمانت کی درخواست پر شنوائی ہورہی تھی وکیل د لیلیں دے رہے تھے، فادر اسٹین سوامی اسپتال میں تھے، اچانک سماعت روکی گئی اور کورٹ کو اطلاع دی گئی کہ وہ مر گئے۔ ججوں نے کھلی عدالت میں کہا کہ ’’ہم اسٹین سوامی کی بہت عزت کرتے ہیں مگر بے بس تھے۔ ‘‘ اسٹین سوامی یہ لکھ کر گئے ہیں کہ ’’آج میرے ساتھ جو ہورہاہے وہ نیا نہیں۔ پورا ملک جانتا ہےکہ کتنے ممتاز، دانشور، وکیل، مصنف، سماجی کارکن اور اسٹوڈنٹ لیڈر جیل میں ڈال دیئے گئے ہیں کیونکہ انہوں نے اس حکومت کے خلاف آواز اٹھائی تھی۔ میں بھی اسی کھیل کا حصہ ہوں اور اس کیلئے میں کوئی بھی قیمت چکانے کو تیار ہوں۔‘‘ انہوں نے اپنی جان دے کر قیمت چکائی۔ میں چاہتاہوں کہ آپ لوگ (حکمراں محاذ) بھی ایک دن قیمت چکائیں۔
اب میں سیکولرزم پرآتاہوں۔آئین ساز اسمبلی کے رکن کے ٹی شاہ نے جب آئین میں لفظ سیکولرزم کی شمولیت کی وکالت کی توامبیڈکر نے کوئی جواب نہیں دیا۔ بعد میں انہوں نےباہر اس تعلق سے بات کی اور کہا کہ آرٹیکل ۱۵، آرٹیکل ۲۵؍ اور آرٹیکل ۲۸؍ کو دیکھئے ۔ یہ سب مذہب کی بنیاد پر امتیاز سے روک رہے ہیں۔ اس لئے آئین خود پوری طرح سے سیکولر ہے۔ یہ بات پورا ملک جانتا ہے۔ پاکستان نے خود کو مذہبی ریاست قرار دیا مگر ہم نےایسا کوئی اعلان نہیں کیا ، یہ اعلان نہ کرنا اور مذکورہ آرٹیکلس کی موجودگی میں یہ کہنے کی ضرورت ہی نہیں رہ جاتی کہ ملک میں سیکولر سرکار ہے۔ انہوںنے یہ بھی کہا کہ ایسی بری چیز اس ملک میں کبھی نہیں ہوگی،انہوں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ یہ خراب عناصراقتدار میں آجائیں گے۔ (اس پر حکمراں محاذ کی جانب سے ہنگامہ برپا ہوگیا او ر پھر خراب عناصر والے جملوں کو کارروائی سے حذف کردیاگیا،البتہ اس پر معافی مانگنے کا مطالبہ اے راجا نے قبول نہیں کیا)۔ ۱۹۳۱ء میں مہاتما گاندھی نے یہ واضح کردیاتھا کہ ہندوستان مذہبی طورپر غیر جانبدار ملک ہوگا۔ بعد میں نہرو نے ۱۹۴۶ء میں اس سلسلے میں ریزولیوشن پیش کیا۔ یہ اس طرف ہورہاتھا۔ اُس طرف کیا ہو رہاتھا؟ ۳۰؍ نومبر ۱۹۴۹ء کو سیکولرزم پر نہروکی قرارداد کو منظور کیاگیا۔۴؍ دن بعد آر ایس ایس کے ترجمان آرگنائزر نے لکھا کہ موجودہ آئین مغربی ممالک سے مستعار ہے۔ اس کی تیاری میں ویدوں یا منواسمرتی سے استفادہ نہیں کیا گیا۔ میں جاننا چاہتا ہوںکہ دو قومی نظریات کس نے پیش کئے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جناح نے پیش کیا۔ ایسا نہیں ہے۔۱۹۲۴ء میں ساورکر یہ نظریہ پیش کر چکے تھے جسے امبیڈکر نے قبول نہیں کیا۔ انہوں نے واضح طور پر کہا تھا کہ اگر اس ملک میں ہندو راج آگیا توبہت نقصاندہ ہوگا۔ اس کو کسی بھی حال میں روکنا ہوگا۔ اس کے برخلاف وزیراعظم نے یوم آزادی پر اپنی تقریر میں دونوں، ساورکر اور امبیڈکر ،کو ایک ہی خانے میں رکھ دیا۔ یہ کیا ہے؟
قانون کی حکمرانی کے حوالے سے میں صرف منی پور، بلقیس بانو اور خاتون پہلوانوں کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کا حوالہ دینا چاہتا ہوں۔ عدلیہ کی آزادی کا معاملہ لیں تو میں نام نہیں لینا چاہتا مگر ایک جج کو اس کے ۲۳؍ سینئر ججوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اس حکومت میں ترقی دی گئی۔ اسی طرح تمل ناڈو میں ہائی کورٹ کےایک دلت جج سپریم کورٹ جانے کے اہل تھے مگر انہیں کیرالا کا چیف جسٹس بنا کر ختم کردیاگیا۔ یہ حال ہے عدلیہ کی آزادی کا۔