برلن،11 جون (آئی این ایس انڈیا)اپنی نوعیت کے چوتھے جرمن چینی حکومتی مذاکرات کے لیے جرمن چانسلر انگیلا میرکل ایک بڑے وفد کے ہمراہ بارہ تا چَودہ جون چین کا دورہ کریں گی۔ اس دوران اقتصادیات کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق پر بھی تبادلہء خیال کیا جائے گا۔یورپی یونین کے رکن ملکوں کے ساتھ چینی تجارتی روابط میں جرمنی کا حصہ تیس فیصد ہے اور یوں جرمنی یورپ میں چین کا سب سے بڑا تجارتی ساتھی ہے۔ اسی طرح چین جرمنی سے مصنوعات خریدنے والا چوتھا بڑا اور مشینوں کے شعبے میں تو سب سے بڑا ملک ہے۔ ایسے میں بلا شبہ پیر سے بیجنگ میں شروع ہونے والی چوتھی چینی جرمن حکومتی مشاورت میں معاشی موضوعات کو مرکزی اہمیت حاصل رہے گی۔یجنگ میں جرمنی کی جانب سے کن موضوعات پر بات ہونی چاہیے، اس بارے میں جرمن معیشت کی کمیٹی برائے ایشیا و بحرالکاہل سے وابستہ فریڈولین شٹراک نے ڈی ڈبلیو کو بتایا:ہم اس امر کی زبردست وکالت کر رہے ہیں کہ چین کو اصلاحات کا عمل تیز تر کر دینا چاہیے، اپنی منڈیوں کے دروازے اور زیادہ کھولنے چاہییں، ہم چاہتے ہیں کہ ہمیں چینی معیشت کے تمام شعبوں میں آزاد معیشت کے اصول رائج نظر آئیں۔ اس کے ساتھ ساتھ چین اس مسئلے کو بھی حل کرے کہ اُس کے ہاں حد سے زیادہ پیداوار ہماری منڈیوں کو متاثر کر رہی ہے۔شٹراک کے بقول چین کے ساتھ تجارت میں سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ فولاد، المونیم، سیرامک اور شیشے کے ساتھ ساتھ بائیسکل تیار کرنے والے چینی اداروں نے بھی اپنی سستی مصنوعات سے مغربی دنیا کی منڈیاں بھر دی ہیں۔ دوسرا بڑا مسئلہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کو چینی منڈی میں سرگرم ہونے کی محض محدود اجازت ہے۔ جرمن کاروباری اداروں کا اصرار ہے کہ سرمایہ کاری کے حوالے سے انہیں بھی چین میں وہی سہولتیں دی جائیں، جو جرمنی یا یورپ میں چینی سرمایہ کاروں کو دی جاتی ہیں۔ فریڈولین شٹراک کے بقول جرمنی اس حوالے سے اگلے دو برسوں میں حالات بہتر ہو جانے کی امید کر رہا ہے کیونکہ چین کا اقتصادی ترقی کا اب تک کا ماڈل اپنی گنجائش کی آخری حدوں تک پہنچ چکا ہے اور خود چین کو بھی بیرونی سرمایے کی زیادہ ضرورت ہو گی۔اس دورے کے دوران پیداواری ٹیکنالوجی جیسے شعبوں میں چین کے ساتھ تحقیق و ترقی کے مشترکہ منصوبے پروان چڑھانیکی کوششوں پر بھی بات ہو گی۔ ویسے یہ کوششیں جرمن کمپنیوں کے اس ڈر کی وجہ سے بھی اب تک زیادہ کامیاب ثابت نہیں ہو سکی ہیں کہ کہیں اس سارے عمل میں معاملہ اُن کے قابو سے باہر نہ ہو جائے اور اُن کی اپنی ٹیکنالوجی اُن کے ہاتھوں سے نہ نکل جائے۔جرمن چانسلر اپنے اس دورے کے دوران تجارت کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق اور بحیرہء جنوبی چین میں علاقائی ملکیت جیسے مسائل پر بھی بات کریں گی۔