تہران،12جون؍(آئی این ایس انڈیا)ایران کی جانب سے کینیڈا کی عدالت کے اُس فیصلے کی بھرپور مذمت کی گئی ہے، جس کے مطابق کینیڈا میں ایرانی حکومت کے اثاثوں سے 1.3 کروڑ کینیڈیئن ڈالر ضبط کر کے اس رقم کو، تہران حکومت کے منصوبہ بند حملوں کا شکار افراد کے خاندانوں میں تقسیم کرنے کا حکم جاری کیا گیا ہے۔ عدالت کے مطابق ان حملوں پر عمل دارمد حزب اللہ اور حماس تنظیموں نے کیا۔فیصلے کے مطابق 1983سے 2002کے درمیان 8کارروائیوں میں ہلاک ہونے والے امریکیوں کے خاندان کینیڈا میں ایرانی حکومت کے زیرانتظام جائیداد اور بینک کھاتوں سے بطور ہرجانے کی وصولی کے مستفید ہوں گے۔ادھر ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان حسن جابر انصاری نے فیصلے کی مذمت کی ہے۔ ایرانی سرکاری نیوز ایجنسی کے مطابق انصاری نے کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ کینیڈا کی بین الاقوامی پاسداری کے منافی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ یہ فیصلہ کینیڈا کی نئی حکومت کی جانب سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو معمول کے مطابق بنانے کی یقین دہانیوں سے بھی متصادم ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کے لیے کینیڈیئن حکومت کی شدت پسند اور غلط پالیسیوں پر نظر ثانی ضروری ہے۔کینیڈا کے ذرائع ابلاغ کے مطابق اس رقم کی قیمت تقریبا 1کروڑ 30لاکھ کینیڈیئن ڈالر (تقریبا 1کروڑ امریکی ڈالر)ہے۔امریکی مقتولین کے خاندانوں نے کینیڈا میں یہ مقدمہ 2012میں منظور کیے جانے والے ایک نئے قانون کے تحت دائر کیا تھا۔ اس قانون کے مطابق کارروائی کا شکار افراد اور ان کے اہل خانہ، ان ملکوں کے مالی اثاثوں سے ہرجانے کی رقم حاصل کرسکتے ہیں جن کو کینیڈا کی حکومت دہشت گردی کا سرپرست شمار کرتی ہے۔ کینیڈا بھی ایران کو ان ہی ملکوں میں شمار کرتا ہے۔بیونس آئرس، اسرائیل ، لبنان اور سعودی عرب میں ہونے والے ان حملوں میں سیکڑوں امریکی مارے گئے تھے۔کینیڈا کی عدلیہ کا رخ کرنے سے پہلے مذکورہ خاندانوں نے اسی کے مماثل ایک مقدمہ امریکی عدالت میں بھی دائر کیا تھا جس نے اپریل میں مذکورہ حکم سے ملتا جلتا فیصلہ جاری کیا تھا جس پر ایران کی جانب سے شدید اعتراض بھی سامنے آیا۔اونٹاریو میں کینیڈا کی سپریم کورٹ کے جج نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ "دہشت گردی دنیا کو درپیش سب سے بڑے خطرات میں سے ہے۔کینیڈا کی عدالت کا فیصلہ ایسے وقت میں آیا ہے جب کہ جیسٹن ٹروڈو کی سربراہی میں کینیڈا کی حکومت ایران کے ساتھ تعلقات کی بحالی اور ایران میں کئی روز سے زیرحراست ایرانی نژاد کینیڈیئن خاتون پروفیسر کی رہائی کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔