احمد آباد، 17؍جون(ایس اونیوز/آئی این ایس انڈیا )گلبرگ سوسائٹی قتل عام معاملے کو انسانی معاشرہ کی تاریخ کا ’سب سے زیادہ سیاہ دن‘قرار دیتے ہوئے ایک خصوصی ایس آئی ٹی عدالت نے2002میں گجرات کے خوفناک مسلم کش فسادات کے دوران کانگریس کے سابق ممبر پارلیمنٹ احسان جعفری سمیت69لوگوں کو زندہ جلانے کے معاملے میں آج 11قصورواروں کو عمر قید کی سزا سنائی۔تمام قصورواروں کے لیے موت کی سزا کے مطالبہ کو ٹھکراتے ہوئے عدالت نے کہا کہ اگر ریاست 14سال قید کے بعد سزا میں چھوٹ دینے کے اپنے حق کا استعمال نہیں کرتا ہے تو 11قصورواروں کی عمر قید کی سزا ان کی موت تک رہے گی۔عدالت نے کم سنگین جرائم کے لیے 13قصورواروں میں سے ایک کو 10 سال قید کی سزا اور 12دیگر میں سے ہر ایک کو 7 سال قید کی سزا سنائی ہے۔فریق استغاثہ نے مطالبہ کیا تھا کہ تمام 24قصورواروں کو موت کی سزا دی جانی چاہیے ۔قتل عام کوانسانی معاشرے کی تاریخ میں سب سیاہ دن قرار دیتے ہوئے خصوصی عدالت کے جج پی بی دیسائی نے قصورواروں کو موت کی سزا سنانے سے انکارکردیااورکہاکہ اگر آپ تمام پہلوؤں کو دیکھیں تو ریکارڈ میں پہلے کی کوئی مثال نہیں ہے۔جج نے مزید کہا کہ واقعہ کے بعدملزمان میں سے90فیصد کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا اور ان کے خلاف کسی نے کوئی شکایت درج نہیں کرائی، یہاں تک کہ متاثرین نے بھی نہیں اور ایسا کوئی ریکارڈ بھی نہیں ہے جس سے پتہ چلے کہ ضمانت پر رہتے ہوئے انہوں نے کوئی جرم کیا۔انہوں نے کہا کہ اس وجہ سے انہیں لگتا ہے کہ اس معاملے میں قصورواروں کو موت کی سزا دینا مناسب نہیں ہے۔عدالت نے کہا کہ اس نے بغیر مقررہ وقت کے 11قصورواروں کو عمر قید کی سزا دینے کا فیصلہ کیا ہے جو قتل کے مجرم ٹھہرائے گئے ہیں۔ساتھ ہی اس نے ریاستی حکومت سے درخواست کی کہ وہ 14سال قید کے بعد ان کی سزا میں چھوٹ کے لیے اپنے حق کا استعمال نہ کرے۔فیصلہ سناتے ہوئے عدالت نے کہاکہ سی آر پی سی کی دفعہ ریاست کو 14سال کی قید کے بعد سزا میں نرمی کا حق دیتی ہے ، دفعہ 433اے اس حق پر کچھ پابندی لگاتی ہے۔اگر ریاست سزا میں رعایت کے اپنے حق کا استعمال نہیں کرتی ہے تو عمر قید کا مطلب ہے کہ موت ہونے تک جیل میں رہنا۔جج نے کہاکہ دفعہ 302کے تحت جو کہا گیا ہے، اس کے آگے میں کچھ نہیں کہہ سکتا ، ریاست کے لیے سزا میں چھوٹ دینے کے حق کا استعمال کرنا ضروری نہیں ہے، ریاست چاہے تو چھوٹ کے حق کا استعمال نہ کرے۔انہوں نے کہا کہ عدالت کافیصلہ مجبور کرنے والا نہیں ہے کیونکہ وہ ریاست کی نافذ کرنے کی طاقتوں کو الگ نہیں کر سکتے ۔
اس معاملہ کے 13دیگر ملزمین کم سنگین جرم کے لیے مجرم ٹھہرائے گئے تھے جن میں قتل (دفعہ 302)شامل نہیں ہے۔ان مجرموں میں سے ایک مانگی لال جین کو عدالت نے 10سال قید کی سزا اور دیگر 12میں سے ہر ایک کو 7 سال قید کی سزا سنائی ہے۔قابل ذکرہے کہ گلبرگ سوسائٹی قتل عام کا سانحہ 28؍فروری 2002کو پیش آیا تھا جس نے پورے ملک کو حیرت زدہ کر دیا تھا۔ان دنوں نریندر مودی گجرات کے وزیر اعلی تھے۔اس معاملے میں تقریبا 400لوگوں کی بھیڑ نے احمد آباد کے وسط میں واقع گلبرگ سوسائٹی پر حملہ کرکے احسان جعفری سمیت وہاں کے 69بے قصور لوگوں کوموت کے گھاٹ اتاردیا تھا۔یہ معاملہ 2002میں ہوئے گجرات فسادات کے ان 9 مقدمات میں سے ایک تھا جس کی جانچ سپریم کورٹ کی طرف سے مقرر خصوصی تفتیشی ٹیم نے کی ۔عدالت نے کہاکہ سبھی سزائیں ساتھ ساتھ چلیں گی کیونکہ سپریم کورٹ نے واضح طورپر کہا ہے کہ اگر جرم کا مقصد ایک ہے تو تعزیرات ہند کی مختلف دفعات کے تحت دی گئی سزائیں ساتھ ساتھ چھلنی چاہیے ۔فریق استغاثہ اور متاثرین نے مطالبہ کیا تھا کہ تمام ملزمان کو دی گئی سزائیں ساتھ ساتھ نہیں چھلنی چاہیے نیز سبھی 24ملزمین اپنی پوری زندگی جیل میں گزاریں ۔اس سے پہلے، 2 جون کو عدالت نے قتل اور دیگر جرائم کے لیے 11افراد کو مجرم ٹھہرایا تھا اور وی ایچ پی لیڈر اتل ویدیہ سمیت 13دیگر لوگوں پر کم سنگین جرم کے الزام لگائے تھے ۔عدالت نے معاملہ کے 36دیگر ملزمان کو بری بھی کر دیا تھا۔جن مجرموں کو عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے، ان میں کیلاش دھوبی، یوگیندر شیخاوت، جییش جنگار، کرشنا کلال، جییش پرمار، راجو تیواری، بھرت راجپوت، دنیش شرما، نارائن ٹانک، لکھن سنگھ چوڑاسما اور بھرت تائیلی شامل ہیں۔
’’سبھی مجرموں کو عمر قید کی سزادی جانی چاہیے‘‘