نئی دہلی،4جولائی(ایس او نیوز/آئی این ایس انڈیا)ہندوستان کے سب سے بڑے ریڈ لائٹ ایریا سونا گاچھی میں بھی جی ایس ٹی نافذ ہونے کا اثر ہو رہا ہے۔ایک طرف جہاں کنڈوم کے اوپر زیرو فیصد ٹیکس لگنے کی خوشی ہے، وہیں سینٹری نیپکن پر 18فیصد جی ایس ٹی فکر کی بات ہے۔یہاں اوشا کو-آپریٹو بینک ہے جسے جنسی کارکن ہی چلاتی ہیں۔30ہزار اراکین والے اس بینک سے ہزاروں جنسی ورکرز کو سینٹری نیپکن اور کنڈوم دئے جاتے ہیں۔بینک کی فنانس منیجر شاتن چٹرجی کہتی ہیں کہ ہمیں سبسڈی کے تحت سینٹری نیپکن ملتا تھا اور ہم اسے جنسی ورکرس کو دیتے تھے لیکن 18فیصد جی ایس ٹی لگائے جانے کے بعد جو کمپنیاں ہمیں سپلائی کرتی ہیں، انہوں نے ڈسکاؤنٹ دینے سے انکار کر دیا ہے۔بینک کے ساتھ کام کرنے والی سمرجیت جنا کہتی ہیں کہ گزشتہ کچھ سالوں میں ہم نے ایچ آئی وی ؍ایڈز کے معاملات کو 5-6فیصد سے 2فیصد کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم کنڈوم پر زیرو جی ایس ٹی کا خیرمقدم کرتے ہیں، لیکن سینٹری نیپکن پر ٹیکس لگانے سے جنسی ورکرز کو مشکلات ہوں گی۔انہوں نے کہا کہ کافی جنسی ورکرز غریب خاندانوں سے آتی ہیں، انہیں سینٹری نیپکنس استعمال کرنے کے لئے کافی قائل کیا گیا تھا۔انہوں نے کہا کہ یا تو حکومت اسے ٹیکس سے باہر رکھتی یا پھر 5فیصد کا ٹیکس لگاتی۔جنا نے کہا کہ وہ اب نئی بیداری مہم شروع کریں گی۔
بینک کے حکام کے مطابق، وہ 3.33روپے کی شرح سے رومال خریدنے تھے اور 63پیسے فی نیپکن فروخت کرتے تھے۔جی ایس ٹی کے بعد ایک رومال کے لئے بینک کو 8روپے دینے ہوں گے۔سونا گاچھی کے زیادہ تر جنسی کارکنات سستے ریٹ پر ملنے والے سینٹری نیپکن پر ہی منحصر رہتی ہیں۔