ایس وائی قریشی کی مسلم آبادی کے متعلق کتاب کی رسم اجراء میں ممتازشخصیتوں کی شرکت
بنگلورو،27؍ستمبر(ایس او نیوز) ملک میں بدقسمتی سے وہ شدت پسند طبقہ برسراقتدار آگیا ہے جو اس ملک کے آئین میں گھس کر اس کو کھوکلا کرنے میں لگا ہوا ہے۔ جب تک سنجیدگی اور شدت کے ساتھ ان طاقتو ں کو منہ توڑ جواب دینے کے لئے متحدہ کوشش نہیں ہو گی اس وقت تک اس ملک کے آئین کوکمزور کرنے کا عمل جاری رہے گا۔ یہ بات اتوار کے روز بنگلورو میں سابق چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی کی کتاب۔ پاپولیشن۔ دی متھ۔کے اجراء سے خطاب کرتے ہوئے ریاستی اسمبلی کے سابق اسپیکر رمیش کمار نے کہی۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی نظام میں تین قسم کی قوتوں نے سر اٹھایا بایاں محاذ وہ ہے جو کمیونسٹ انقلاب سے متاثر ہوا۔ معتدل قوتیں وہ ہیں جو اس ملک کی آزادی کی جدوجہد سے جڑی رہیں اور بائیں شدت پسند طاقتیں وہ ہیں جو اس ملک میں کمزور طبقات کو کچل کر اقتدار میں رہنا چاہتی ہیں۔ بدقسمتی سے آج ملک اور ریاست کے اقتدار پر اس قوت کا قبض ہ ہو چکا ہے جو اسی منووادی سوچ کی نمائندگی کرتی ہے اور سماج کے کمزور طبقات کو کچل کر اقتدار صرف ایک طبقہ تک محدود رکھنا چاہتی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہندوستان کبھی فرقہ پرست ملک نہیں تھا۔ آزادی ہند، تقسیم اور گاندھی کے قتل کے بعد لوک سبھا کے پہلے انتخاب میں 489نشستوں میں سے کٹر فرقہ پرست جن سنگھ اور اس کی ہم خیال تنظیموں سے صرف چھ نمائندے چن کر آسکے۔ اس سے صاف ظاہر ہو تا ہے کہ اس ملک کا ہندو کبھی فرقہ پرست نہیں رہا۔ گزرتے وقت کے ساتھ فرقہ پرست قوتوں نے پوری محنت کے ساتھ اپنے آپ کو مضبوط کرنے کے لئے کام کیا اور آج وہ اس ملک کے آئین کا دم بھرتے بھرتے اس کو کھوکلا کرنے کاکام کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس ملک کے لئے مسلمانوں نے کیا دیا ہے آج اس کو لوگوں کے ذہنوں سے مٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور تاریخی حقائق کو توڑ مروڑ کر عوام کے سامنے اس انداز میں پیش کیا جا رہا ہے کہ مسلمانوں نے اس ملک میں اسلام جبراً پھیلا یا۔ انہوں نے کہا کہ اگر مسلم حکمرانوں نے اپنے 800سالہ دور حکومت میں اسلام کو اس ملک میں جبراً پھیلایا ہوتا تو آج ہندوستان میں ایک بھی ہندو باقی نہیں رہ جاتا۔اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمان اور انگریز حکومتوں نے اس ملک کے سکیولر کردار کو کبھی نقصان پہنچانے کی کوشش نہیں کی۔مسلمانوں کو اس ملک کی آبادی میں اضافے کے لئے ذمہ دار ٹھہرانے کے پروپگنڈہ کا جواب دینے کے لئے ایس وائی قریشی کی طرف سے منظر عام پر لائی گئی کتاب کورمیش کمار نے سراہا۔سابق ریاستی وزیر ڈاکٹر ایچ سی مہادیوپا نے اس موقع پر اپنے خطاب میں کہا کہ مسلمانوں پر یہ الزام غلط ہے کہ انہوں نے اس ملک میں اسلام کو اقتدار اور طاقت کے بل پر پھیلایا اور کہا کہ 800سال تک مسلمان اس ملک کے اقتدار پر رہے۔ ان کے بعد 200سال تک انگریز وں نے ملک پر حکومت کی لیکن اس مدت کے دوران کبھی ملک کو اسلامی مملکت یا عیسائی ملک قرار دینے کی کوشش نہیں ہوئی۔ اب جبکہ فرقہ پرست قوتوں نے اس ملک کے اقتدار پر قبضہ کر لیا تو یہ کہا جا رہا ہے کہ اس ملک کو ہندوراشٹرا بنایا جا ئے گا۔انہوں نے کہا کہ عام ہندوستانی ہندو اور مسلمان اس ملک میں مل جل کر زندگی بسر کرنے کے قائل ہیں۔ صرف وہ مٹھی بھر لوگ جو اقتدار کے ذریعے اپنا الو سیدھا کرنا چاہتے ہیں وہ نفرت کا بیج بو رہے ہیں ان طاقتوں کو موثر جواب دینا ضروری ہے۔اس موقع پر کتاب کے مصنف ایس وائی قریشی نے کتاب کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی اور اس کے تناظر میں مسلمانوں کے لئے درکار حکمت عملی کا تذکرہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستا ن آج تک اس لئے سکیولر ہے کہ اس ملک کا ہندوباشندہ سکیولر رہا۔ اگرہندو باشندے سکیولر نہ ہو تے تو پاکستان یا بنگلہ دیش کی مانند ہندوستان بھی بہت پہلے ہی ہندوراشٹرا بن جاتا۔ مسلمانوں کو بار بار اس ملک میں آبادی میں اضافہ کے لئے ذمہ دار ٹھہرانے والوں کو جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ صرف سرکاری اعداد وشمار کی بنیاد پر انہوں نے اس وہم کو ختم کردیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تقسیم کے بعد پہلی مردم شماری کے دوران اس ملک کے ہندوؤں اور مسلمانوں کی آبادی میں 27کروڑ باشندوں کافرق تھاگزرتے وقت کے ساتھ اس ملک میں ہندوؤں کی تعداد اتنی بڑھی کہ اب یہ فرق بڑھ کر 80کروڑ تک پہنچ چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آزادی سے اب تک ملک کے مسلمانوں کی آبادی میں محض 4.4فیصد کا ہی اضافہ ہوا ہے۔ مسلمانوں میں فیملی پلاننگ نہ ہونے کے پروپگنڈے کو بھی انہوں نے جھوٹا قرا ر دیتے ہوئے کہا کہ مردم شماری 2011کا ڈاٹا یہ بتاتا ہے کہ ملک کے 45فیصد مسلمانوں نے فیملی پلاننگ کو اپنا رکھا ہے۔ قریشی نے مزید کہا کہ مسلمانوں پر یہ الزام بھی بے بنیاد ہے کہ ان میں کثرت ازدواج کی وجہ سے ملک کی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے اور کہا کہ حکومت کی طرف سے جاری ہونے والے ڈاٹا سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ مسلمانوں پر کثرت ازدواج کے ذریعہ زیادہ بچے پیدا کرنے کا جو الزام لگایا جاتا ہے وہ غیر حقیقت پسندانہ پروپگنڈہ کا حصہ ہے۔انہوں نے کہا کہ ملک کے آبادیاتی اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ ملک میں فی ہزار مردوں کے مقابلہ عورتوں کی تعداد940ہے اس حساب سے ایک مرد کے لئے ایک بیوی میسر نہیں۔ ایسے میں چار چار کہاں سے لائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کی مانند اس ملک کے ہندوبھی پسماندہ ہیں اور وہ طبقہ بھی تعلیم سے محروم ہے سیاسی جماعتوں نے ان دونوں طبقات کو تعلیم سے دور رکھ کر انہیں جذباتی مسئلوں میں الجھا کر رکھا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان طبقات کو ان کی حقیقی صورتحال سے آگاہ کروایا جائے۔ اس موقع پر سابق ریاستی وزیر نصیر احمد نے اپنے خطاب میں مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ کے متعلق برادران وطن میں جو غلط فہمی تھی اس کے ازالہ کے لئے قریشی کے تحقیقی کام کو کتابی شکل دئیے جانے کی ستائش کی اور کہا کہ سماج کا وہ طبقہ جو مسلمانوں کے متعلق غلط فہمیوں کو دہائیوں سے اپنے دل میں پالے ہوئے ہے اس کو دورکرنا اور سماج کے تمام طبقات کو اعتماد میں لینا ضروری ہے۔ تقریب میں سابق رکن راجیہ سبھا اور نئی دنیا کے ایڈیٹر شاہد صدیقی، سابق رکن کونسل ڈاکٹرایم پی ناڈا گوڈا، نرسمہیا،انیل کمار،سیو کانسٹی ٹیوشن کے عہدیداران۔ متعدد دانشوران و عمائدین شہر نے شرکت کی۔