علی گڑھ :30 /مارچ(ایس اونیوز /آئی این ایس انڈیا) الجیریا(الجزائر) ایک طویل عرصے تک فرانسیسی استعمار کے قبضہ میں رہا ہے۔ آج بھی اس کی فکر اور تہذیب پر فرانس کی ثقافت اور تمدن کے گہرے اثرات کا مشاہدہ کیا جا سکتاہے جس طرح آزاد ہندوستان ہنوز برطانوی سامراج کی فکری و تمدنی یلغار کے اثرات سے جاں بر نہیں ہوسکا ہے۔ مغرب نے عالم اسلام سے سیاسی وعسکری محاذ سے پسپائی تو اختیار کی مگر مسلمانوں کی فکر،ان کے عقیدہ و تہذیب پر اپنے سامراجی اثرات چھوڑگیا۔الجزائر کے دانشور،علمائے دین اور ادیب ومصنف بیشتر فرانس کی فکر وتمدن کی نقالی میں لگے ہوئے ہیں۔یہ باتیں ڈاکٹر محمد احمد جرادی( پروفیسر شعبۂ فقہ واصول فقہ، ادرار یونیورسٹی، الجیریا) نے اے ایم یو کے شعبہ اسلامک اسٹڈیز کے صدر پروفیسر عبیداللہ فہد کی رہائش گاہ پر ان سے ملاقات اور تبادلہ خیال کے دوران کہیں۔ بعد نماز مغرب یہ علمی مجلس منعقد کی گئی تھی۔الجزائری محقق ڈاکٹر جرادی نے کہا کہ شیخ عبدالحمید بن بادیس وہ اولین مصلح اور عالم دین ہیں جنہوں نے الجزائر کے عربی اسلامی تشخص کے تحفظ کے لیے تعلیمی تحریک چلائی۔مدرسے،کالج اور جدید تعلیمی ادارے قائم کیے۔ اسلامی ادبیات کا گراں قدر ذخیرہ فراہم کیا۔تفسیر الشاب لکھ کر قرآن کریم کی مصلحانہ وتجدیدی ترجمانی کی مگر وہ اصلا مصلح ہیں، باحث اور محقق کم ہیں۔پروفیسر عبیداللہ فہد نے اس موقع پر کہا کہ ہند۔پاک کے دینی لٹریچر میں شیخ بن بادیس کی فکر اور خدمات کو سید ابوالاعلی مودودی،سید قطب اور ڈاکٹر علی شریعتی ومرتضی مطہری کے ہم پلہ سمجھا جاتا ہے۔ عالم اسلام کے ان مفکرین نے مغربی فکر وثقافت کی مزاحمت کی اور احیائے اسلام کی جدوجہد قرآن وسنت کے منہج کے مطابق کرنے کی کوشش کی،الجزائری دانشور نے اس تبصرہ سے اتفاق کیاہے۔ڈاکٹر جرادی نے مزید کہا کہ مالک بن نبی الجیریا کے دوسرے بڑے دانش ور ہیں۔ انہوں نے الظا ھرۃ القرآنیۃ کے ذریعہ قرآن پاک کے بے مثل اور معجزانہ ادب کے بعض نئے گوشوں پر روشنی ڈالی۔ان کا نظریہ ثقافت علامہ ابن خلدون کے افکار سے مستفاد تو ہے مگر سماجی عوامل اور تہذیبی محرکات و موثرات کے متخصصانہ مطالعہ کی وجہ سے زیادہ ترقی یافتہ اور معاصر ترقیات سے ہم آہنگ ہے۔ مالک بن نبی کے سماجی و عمرانی نظریات پر فرانس اور مغرب میں نئے نئے مطالعے سامنے آرہے ہیں۔ تاہم ڈاکٹر جرادی نے مالک بن نبی کی فکر کو مغرب کے افکار سے گہرے تاثر کا ثمرہ قرار دیا۔ان کی فکر میں الجزائر کے قومی ورثہ کی جھلک بھی پائی جاتی ہے مگر اس فکر پر فرانسی ثقافت کااثرہے۔الجیریا کے ایک اور دانش ور محمد ارکون کی فکر اور عطیات سے بھی ڈاکٹر محمداحمد جرادی نے بحث کی۔ ان کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ارکون مسلمان مفکر تو ہیں مگر الجزائری فکر و ثقافت کے لیے اجنبی ہیں۔انہوں نے معاصر اسلامی فکر پر جو تحریریں چھوڑی ہیں وہ فرانسیسی یا انگریزی میں ہیں اور ان پر مغرب کے فکری تمدنی ورثہ کے اثرات نمایاں ہیں۔قرآن کریم نے خواتین کا جو مقام و مرتبہ متعین کیا ہے اس پر محمد ارکون کو اطمینان نہیں ہے وہ جدید نسائی تحریکات کی بڑی حد تک وکالت کرتے نظر آتے ہیں۔ ڈاکٹر جرادی نے تاسف کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے مفکر اور دانش ور اجنبی فکروتہذیب سے اس قدر مسحور ہیں کہ انہیں دور رسالت کی بازیابی کی جدجہد میں تشفی نہیں ملتی وہ تجدید و اصلاح سے آگے بڑھ کے تجدد میں مبتلا ہوچکے ہیں اور خود اسلام کی اصلاح کی فکر میں پریشان ہیں۔اس علمی مجلس میں شعبے کے ریسرچ اسکالرز کے علاوہ یمن کے بعض عرب طلبہ بھی موجود تھے۔قابل ذکر ہے کہ ماریشس کے طالب علم تیسیر بن شاہ گولفی، پروفیسر عبیداللہ فہد کی نگرانی میں الجزائری مفکر محمد ارکون کی اسلامی فکر پر ریسرچ کر رہے ہیں۔