تہران،10جون(آئی این ایس انڈیا)شام کے متنازع صدر بشارالاسد کے سب سے بڑے حامی اور پشتی بان ایران اور روس نے صدر اسد کی امداد کی تجدید کے لیے کوششیں تیز کردی ہیں۔ اس سلسلے میں جمعرات کو ایران کے صدر مقام تہران میں تینوں ملکوں کے مندوبین پرمشتمل ایک اہم اجلاس منعقد ہوا جس میں دہشت گر تنظیموں کے خلاف کارروائی میں شدت لانے پر غور کیا گیا۔غیرملکی خبر رساں اداروں کے مطابق شامی حکومت کے دفاع میں ایران میں سہ فریقی اجلاس ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب دوسری جانب شام کے حلب شہر میں دولت اسلامی داعش اور القاعدہ سے وابستہ النصرہ محاذ کے خلاف فوجی آپریشن میں مزید شدت پیدا کی گئی ہے۔اجلاس میں شریک ایرانی وزیردفاع جنرل حسین دھقان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ اپنے روسی اور شامی ہم منصب کے ساتھ بات چیت میں دہشت گرد تنظیموں کے خلاف فیصلہ کن لڑائی جاری رکھنے پر تبادلہ خیال کریں گے۔ایرانی وزیردفاع کا کہنا تھا کہ ہمارا ہدف شام میں دہشت گردی میں ملوث گروپوں کی باہر سے ملنے والی سیاسی اور فوجی امداد کے راستے بند کرتے ہوئے ان کی کارروائیوں کی روک تھام کرنا ہے۔تہران میں منعقدہ سہ فریقی اجلاس اعلان کے ساتھ اختتام پذیر ہوا کہ تینوں ممالک (ایرن، روس،شام) دہشت گردی کی بیخ کنی اپنی مشترکہ ترجیحات کے پروگرام میں شامل رکھیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ شام میں جاری لڑائی کے مثبت نتائج پیش آئند ایام میں دیکھے جائیں گے۔ایرانی ٹی وی کی ویب سائیٹ نے وزیردفاع حسین دھقان کا ایک بیان نقل کیا ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ تہران میں منعقدہ اجلاس میں ہم نے عالمی اور علاقائی سطح پر موثر اقدامات کے تناظر میں فیصلے کیے ہیں۔ایرانی عہدیدار کا کہنا تھا کہ ہم شام میں قیام امن اور وسیع تر جنگ بندی کے ساتھ ساتھ جنگ سے متاثرہ علاقوں تک امداد کی رسائی یقینی بنانے کے پروگرام پر بھی کام کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شام میں صدربشارالاسد کی امداد تہران اجلاس کا مرکزی موضوع رہا ہے۔خیال رہے کہ سنہ2011ء سے شام میں جاری خانہ جنگی کے دوران اب تک ایران اور روس دمشق رجیم کے سب سے بڑے حامی اور مددگار بن کرسامنے آئے ہیں۔ روس نے اپنی فوج اور جنگی طیارے باقاعدہ شام میں جاری جنگ میں جھونک رکھے ہیں جب ایران بھی بشارالاسد کی فوج اور اس کی حامی ملیشیا کی عسکری مشاورت کی آڑ میں دمشق کی فوجی امداد جاری رکھے ہوئے ہے۔