الہ آباد، 8 /دسمبر(ایس او نیوز/ آئی این ایس انڈیا) اسلام کے تین طلاق دینے کے طریقہ پر حملہ بولتے ہوئے الہ آباد ہائی کورٹ نے تبصرہ کیا ہے کہ اس طرح سے فورا طلاق دینا ظالمانہ اور حد درجہ توہین آمیز ہے۔ہائی کورٹ نے دعوی کیا ہے کہ یہ ہندوستان کو ایک ملک بنانے میں رکاوٹ اور پیچھے دھکیلنے والا ہے۔جسٹس سنیت کمار کی ایک بنچ نے گزشتہ ماہ اپنے فیصلے میں دعوی کیا کہ ہندوستان میں اسلامی قوانین پیغمبر اسلام یا قرآن کریم کی روح کے برعکس ہے اور یہی غلط فہمی بیوی کو طلاق دینے کے قانون کو نقصان پہنچاتی ہے۔عدالت نے تبصرہ کیا کہ اسلام میں صرف انتہائی ہنگامی صورت حال میں ہی طلاق دینے کی اجازت ہے،جب میل ملاپ کی ساری کوششیں ناکام ہو جاتی ہیں،تب دونوں فریق طلاق یا خلع کے ذریعے شادی ختم کرنے کے عمل کی طرف بڑھتے ہیں۔عدالت نے 5 /نومبر کو دیئے گئے فیصلے میں کہاکہ مسلمان شوہر کواپنی مرضی سے، یکطرفہ طورپر فورا طلاق دینے کے حق کا تصور اسلامی شریعت کے مطابق نہیں ہے، یہ ایک عام غلط فہمی ہے کہ مسلمان شوہر کے پاس قرآن کریم کے قانون کے تحت شادی کو ختم کرنے کی من مانی طاقت ہے۔عدالت نے کہاکہ قرآن کریم بیوی کو اس وقت تک طلاق دینے کے بہانے سے مسلمان شخص کو منع کرتا ہے جب تک وہ بھروسہ مند اور شوہر کی اطاعت کرتی ہے۔اس نے کہاکہ اسلامی قانون شخص کو بنیادی طور پر شادی اس وقت ختم کرنے کی اجازت دیتا ہے جب بیوی کا کردار خراب ہو، جس سے شادی شدہ زندگی میں ناخوشی آتی ہے، لیکن بڑی وجہ نہیں ہوں،تو کوئی بھی شخص طلاق کو مناسب نہیں ٹھہرا سکتا خواہ وہ مذہب کی آڑ لینا چاہے یا قانون کی۔عدالت نے 23سالہ خاتون حنا اور عمر میں اس سے 30سال بڑے شوہر کی درخواست مسترد کرتے ہوئے یہ تبصرہ کیا۔حنا کے شوہر نے اپنی بیوی کو تین بار طلاق دینے کے بعداس سے شادی کی تھی۔
مغربی اترپردیش کے بلند شہر کے رہنے والے حنا کے شوہر نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاکر پولیس اور حنا کی ماں کو ہدایات دینے کامطالبہ کیا تھا کہ وہ درخواست گزاروں کو ہراساں کرنا بند کریں اور ان کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے۔بہر حال عدالت نے واضح کیا کہ وہ درخواست گزار کے وکیل کے دلائل کی مخالفت نہیں کر رہی ہے کہ میاں بیوی بالغ ہیں اور اپنا ساتھی منتخب کرنے کے لیے آزاد ہیں، اور انہیں آئین کے تحت حاصل بنیادی حقوق کے مطابق، جینے کے حق اور انفرادی آزادی کے حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔عدالت نے کہاکہ نہ ہی عمر میں فرق کوئی مسئلہ ہے،لیکن جو بات افسوسناک ہے وہ یہ ہے کہ اس شخص نے مفاد کی خاطر اپنی بیوی کو فوری طور پر طلاق کا استعمال کیا۔پہلے درخواست گزار(خاتون)نے اپنا خاندان چھوڑا اور دوسرے درخواست گزار کے ساتھ ہو گئی اور اس کے بعد دوسرے درخواست گزار نے اپنی بیوی سے چھٹکارا حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔عدالت نے کہاکہ جو سوال عدالت کو پریشان کرتا ہے وہ یہ ہے کہ کیا مسلم بیویوں کو ہمیشہ اس طرح کے منمانے رسم ورواج سے جوجھتے رہنا چاہیے؟ کیا ان کا ذاتی قانون ان بدقسمت بیویوں کے تئیں اتنا سخت رہنا چاہیے؟ کیا ان مصیبتوں کو ختم کرنے کے لیے نجی قانون میں مناسب ترمیم نہیں ہونی چاہئے؟ عدالتی ضمیر اس سے پریشان ہے؟ عدالت نے تبصرہ کیاکہ جدید، سیکولر ملک میں قانون کا مقصد سماجی تبدیلی لانا ہے، ہندوستانی آبادی کا بڑا حصہ مسلمان ہیں،اس لیے شہریوں کا بڑا حصہ اور خاص طور پر خواتین کو ذاتی قانون کی آڑ میں پرانے رسوم ورواج اور سماجی طریقوں کے بھروسے نہیں چھوڑا جا سکتا۔