واشنگٹن،30مئی(ایس اونیوز/آئی این ایس انڈیا)ذیکا وائرس کی ابتدا برازیل سے ہوئی تھی اور تیزی سے پھلیتے ہوئے اس وائرس نے شمالی اور وسطی امریکی ممالک کے ساتھ ساتھ کیریبئین جزائر کے کئی ممالک میں خطرے کی گھنٹیاں بجا دی تھیں۔ذیکا کے بحران کی وجہ سے واشنگٹن حکام کو صحت سے متعلق اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنے کا موقع مل گیا ہے۔ امریکا میں ذیکا کو ایک غیر ملکی مسئلے کے طور پر دیکھا جاتا رہا ہے۔ تاہم ماہرین کے مطابق کسی بحران کو نظر انداز کرنا قومی مفاد میں نہیں ہے اور نہ ہی یہ کوئی دانشمندانہ پالیسی ہے۔ اس دوران امریکی حکومت عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او مل کر مچھر کے ذریعے پھیلنے والے اس وائرس پر قابو پانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔مچھروں سے پھیلنے والی بیماریوں کا خوف دہشت گردی کے کسی حملے کے ڈر سے کم نہیں ہوتا اور اصل میں یہ زیادہ مہلک اور جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔ ملیریا، ڈینگی، ویسٹ نائل وائرس، چیکنگنیا بخار اور زرد بخار جیسی مچھروں سے منسلک اور دیگر بیماریاں ہر سال دہشت گردی کا شکار ہونے والے افراد سے بیس فیصد زیادہ انسانوں کی جان لیتی ہیں۔ماہرین مشورہ دیتے ہیں کہ عالمی سطح پر ذیکا کے خلاف مشترکہ پالیسی کی تیاری میں اسی تجربے سے فائدہ اٹھانا چاہیے، جو انسداد دہشت گردی کی عالمی کوششوں سے حاصل ہوا ہے۔مثال کے طور پر افغانستان اور عراق کی جنگوں کی ابتدا میں عسکریت پسندی اور دہشت گردی نے مغربی افواج کو بھی جارحانہ انداز اپنانے پر مجبور کیا۔ تاہم اتحادی افواج کو بہت جلد ہی یہ بات سمجھ آ گئی کہ مقامی افراد کو ساتھ ملانا کامیابی کے لیے کتنا ضروری ہے اور مقامی قبائل کے اختیارات دے کر ہی دہشت گردی کو جڑ سے ختم کیا جا سکتا ہے۔ بالکل یہی طریقہ کار ذیکا وائرس کے انسداد کے لیے بھی اپنایا جا سکتا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ ذیکا کی جنگ میں توجہ بین الاقوامی سطح پر بڑے بڑے فیصلے کرنے یا پالیسیاں تیار کرنے پر نہیں بلکہ مقامی اداروں پر مرکوز کرنی چاہیے۔ اس سلسلے میں ملکی سطح پر مچھروں کی افزائش کو روکنے کے لیے اقدامات کیے جانے چاہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ لوگوں میں آگاہی کی مہم بھی چلائی جائے اور بتایا جائے کہ یہ وائرس کس طرح سے منتقل ہوتا ہے۔آبادی کو مقامی تدابیر اور حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے ذیکا پر قابو پانے کی کوششیں کرنی چاہیں۔