اسلام ابدی مذہب،تبدیلی کی کوئی گنجائش نہیں،مسلم پرسنل لاء بورڈکی خواتین ونگ کااعلامیہ
نئی دہلی3جون(آئی این ایس انڈیا)ہمارا ملک ہندوستان ایک سیکولروجمہوری ملک ہے۔تمام شہریوں کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی پوری آزادی دی گئی ہے۔مسلم پرسنل لا دستور ہند کا اہم حصہ ہے۔ اس ملک کے20 کروڑ مسلمان مسلم پرسنل لا کے مطابق عائلی زندگی کے معاملات طئے کرتے آئے ہیں۔اس وقت میڈیا میں طلاق کا مسئلہ بڑے زور و شور سے اٹھایا جارہاہے ۔ اور یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی جارہی ہیکہ طلاق ثلاثہ کی وجہ سے مسلمان مسلم خواتین کی اکثریت پریشان ہے۔ان خیالات کااظہارپریس کانفرنس میں آل انڈیامسلم پرسنل لاء بورڈکی رکن عاملہ ڈاکٹراسماء زہرانے کیا۔ ڈاکٹر اسماء زہرہ صاحبہ رکن مجلس عاملہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈکے علاوہ ممدوحہ ماجد رکن آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ، زینت مہتاب صاحبہ کنوینر اصلاح معاشرہ برائے خواتین دہلی،پروفیسر ثمینہ تابش صاحبہ جوائنٹ کنوینر اصلاح معاشرہ برائے خواتین دہلی اورمحترمہ ام ایمن صاحبہ رکن اصلاح معاشرہ برائے خواتین دہلی نے اپنے پریس بیانیہ میں کہاکہ اسلا م میں طلاق ایک ناپسندیدہ عمل ہے۔اگر زوجین کے درمیان نباہ نہ ہوسکے تو شدید اختلافات کی صورت میں طلاق کی اجازت مرد کو دی گئی ہے۔ اسی طرح عورت کوعلیحدگی کیلئے خلع کے ذریعہ اجازت دی گئی ہے۔ ایک نشست میں تین طلاق ،طلاق بدعت ہے۔ اسے ناپسندکیاگیاہے۔اس کو بڑھاچڑھاکرمیڈیامیں پیش کیا جارہاہے ۔ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے مقابلہ میں مسلمانوں میں طلاق کا فیصد بہت ہی کم ہے۔ہندوستان ٹائمزجنوری2015 میں شائع Aporva Dat ،اپروا دت کی ایک رپورٹ کے مطابق گذشتہ 5سالوں میں شہری علاقوں میں 350 فیصد تک طلاقوں میں اضافہ ہوا ہے۔ممبئی،کولکاتہ،دہلی، لکھنو، بنگلور کے اعداد و شمار پیش کئے گئے۔بنگلورمیں جہاں تین فیملی کورٹس ہوا کرتے تھے وہ بڑھا کراب 6کردئیے گئے۔ ان میں زیادہ تر آئی ٹی سیکٹر سے تعلق رکھنے والے زوجین کی تعدادہے۔جوشادی کے چند دن بعد ہی طلاق اور علیحدگی کیلئے مقدمہ دائر کر رہے ہیں۔پھر صرف مسلمانوں اور بالخصوص مسلم پرسنل لا کو ہدف بناکر کیوں بدنام کرنا چاہتے ہیں۔چند مٹھی بھر نام نہاد مسلم خواتین اور کاغذی تنظیمیں مہیلاآندولن کے دروغ گوئی پر مبنی سروے پیش کئے جارہے ہیں۔ جس میں یہ ظاہر کیا جارہا ہے۔ 92% مسلم خواتین طلاق کے شرعی طریقے اور مسلم پرسنل لا میں فی الفور تبدیلی چاہتے ہیں۔ اور یہ بھی کہاجارہا ہیکہ ۵۰ ہزار سے زیادہ د ستخطیں اس ضمن میں حاصل کرلی گئی ہیں۔ ہم ان تمام پیش کئے گئے اعداد و شمار کو پوری شدت کے ساتھ رد کرتے ہیں۔ ان تنظیموں پرمسلم خواتین کاکوئی اعتماد نہیں ہے۔ ان خواتین کو شریعت میں مداخلت ،تبدیلی ، تنسیخ کاہرگز حق نہیں پہنچتا۔یہ آفاقی ،عائلی قانون ہے۔جس میں تبدیلی یا اضافے کی کوئی گنجائش نہیں۔ ایسی خواتین جو اسلام اورشریعت سے بیزار ہیں وہ ملک کے سول قوانین سے استفادہ کرنے کیلئے آزاد ہیں۔دوسرا مسئلہ جو بار بار اٹھایا جارہا ہے کہ مسلمانوں میں مرد و زن میں مساوات نہیں ہے۔ اورصنفی امتیازات کا شکار ہیں۔ یہ بھی ایک جھوٹا الزام اسلام اور مسلمانوں پر ہے۔ اسلام میں حقوق و ذمہ داریوں کے ساتھ متوازن ہر دو کیلئے مساوات ہے۔ہندوستان دنیا میں صنفی امتیازات میں 136 نمبرپر ہے۔یہاں عورتوں کو مردوں کے مقابلے 20فیصد کم تنخواہیں ملتی ہیں۔ پھر مسلمانوں کو مورد الزام ٹھہرانا سراسر نا انصافی اور اسلام اور مسلم پرسنل لا کو بدنام کرنے کی منظم سازش ہے۔بعض گوشوں سے یہ مطالبات کئے جارہے ہیں کہ تمام طلاق فیملی کورٹ کے ذریعہ ہونا چاہئے۔ پہلے ہی ملک کے کورٹس لاکھوں مقدمات کی وجہ سے زیر بار ہیں۔ فیملی کورٹس کے ذریعہ طلاق ،تنسیخ نکاح کیلئے ۴ تا ۸ سال درکار ہیں۔ پھر اعلیٰ عدالتوں میں یہ مقدمات زیر التوار رہتے ہیں۔ مسلم پرسنل لا میں انتہائی محفوظ کم وقت میں اس کا حل ہزاروں سال پہلے ہی پیش کردیاہے۔دارالقضاء کے ذریعہ طلاق ،خلع، فسخ نکاح ،نفقہ کے معاملات طئے کئے جاتے ہیں۔ ان کی حیثیت ایک اڈوائزری اور مشورے کی ہوتی ہے۔دارالقضاء ملک میں عدالتوں کے بوجھ کو ایک طرح سے کم کر رہی ہیں۔ ابھی حال میں سائرہ بانواورآفرین رحمان طلاق ثلاثہ کے خلاف سپریم کورٹ پہنچ گئی ہیں۔ کتنے سال یہ مقدمات لڑینگی اور مزید لڑتی رہیں گی۔دنیاکی کوئی عدالت زبردستی مرد کے حق طلاق اور بیوی کے حق خلع کو نہیں چھین سکتی۔یہ تمام کوششیں دراصل یکساں سول کوڈ کے نفاذ کیلئے راہ ہموار کرنے کے لئے کی جارہی ہیں۔ اس کے لئے اسلام بیزار لبرل نام نہاد ٹولے کو خوب استعمال کیا جارہا ہے۔ مسلم پرسنل لا میں کسی بھی قسم کی مداخلت کو ہم ہرگز برداشت نہیں کرینگے اور مسلمانوں کے تمام طبقات، جماعتیں اور ادارے ، مسالک ، گروہ متحدہ طور پر مسلم پرسنل لا میں کسی بھی قسم کی مداخلت کی کوشش کی پرزور مذمت کرتے ہیں۔ اور اپنے قانونی ،دستوری حقوق کے تحفظ کیلئے ہر طرح کی پر امن جدوجہد کیلئے تیار ہیں۔مسلم پرسنل لا بورڈ کی جانب سے عائلی و شرعی قوانین پر تفصیلی لٹریچر موجود ہے۔ طلاق ثلاثہ کی حوصلہ شکنی کیلئے بہت ہی اہم نکات مسلم پرسنل لا بورڈ نے ماڈل نکاح نامہ میں شامل کئے ہیں۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کی جانب سے مجموعہ قوانین اسلامی شائع ہوا ہے۔ جس میں مسلم پرسنل لا کو 523 دفعات میںCodified کیا گیا ہے۔ اس کا انگریزی میں پہلا ترجمہ جناب طاہر محمود صاحب نے کیا تھا اور دوسرا ترجمہ جسٹس سیدشاہ محمد قادری صاحب کررہے ہیں۔