بنگلورو ، 19/دسمبر (ایس او نیوز /ایجنسی)کرناٹک اسمبلی نے کرناٹک دیہی ترقی اور پنچایت راج یونیورسٹی (ترمیمی) بل کو منظور کیا ہے، جو یونیورسٹی کے انتظامی ڈھانچے میں بڑی تبدیلیاں کرے گا۔ ایک بڑی ترمیم میں، گورنر کے بجائے وزیر اعلیٰ کو یونیورسٹی کا چانسلر بنایا گیا ہے۔ حکومت کے مطابق اس اقدام کا مقصد ادارے میں آپریشنز کو ہموار کرنا، فیصلہ سازی کے عمل کو بہتر بنانا اور جدت کو فروغ دینا ہے۔ ترمیم کے تحت، وزیر اعلیٰ کو سرچ کمیٹی کے تجویز کردہ تین ناموں کے پینل سے وائس چانسلر کی تقرری کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔ ان تبدیلیوں کے ذریعے یونیورسٹی کو مزید موثر بنانے اور ریاست کے ترقیاتی اہداف کے مطابق بنانے کی توقع ہے، خاص طور پر دیہی علاقوں میں۔ وزیر انچ کے پاٹل نے بل کا دفاع کرتے ہوئے اس کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ اس فیصلے کا مقصد یونیورسٹی کی تخلیقی صلاحیتوں میں اضافہ اور فیصلہ سازی کے عمل کو تیز کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یونیورسٹیوں کو انتظامیہ، دیہی بہبود اور ترقی میں کردار ادا کرنے کے لیے مناسب تعلیمی انتظام کی ضرورت ہوتی ہے، جو اس ترمیم سے حل ہو جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ ترمیم جدت کو فروغ دے گی اور اس بات کو یقینی بنائے گی کہ یونیورسٹی دیہی ترقی اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے میں مؤثر کردار ادا کر سکتی ہے۔
تاہم، اس بل پر اختلافات بھی سامنے آئے ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں خاص طور پر بی جے پی نے اس اقدام پر تنقید کی اور اسے سیاسی محرک قرار دیا ہے۔ ان کے موقف کے مطابق، گورنر کو چانسلر کے عہدے سے ہٹانا یونیورسٹی کی غیر جانبداری اور خودمختاری کو کمزور کرے گا، جس سے تعلیمی معاملات میں سیاسی مداخلت بڑھ سکتی ہے۔ اس مخالفت کے پیش نظر، بی جے پی کے ممبران اسمبلی نے اسمبلی اجلاس کے دوران واک آؤٹ کیا۔ اس بل نے یونیورسٹی انتظامیہ میں وزرائے اعلیٰ اور گورنروں کے کردار پر بڑے پیمانے پر بحث چھیڑ دی ہے۔ جہاں حامی اس ترمیم کو یونیورسٹی انتظامیہ کی جدید کاری اور بہتری کی جانب ایک قدم کے طور پر دیکھتے ہیں، ناقدین کو خدشہ ہے کہ اس سے تعلیمی اداروں میں سیاست ہو سکتی ہے۔ چونکہ یہ بل مزید غور و خوض کے لیے قانون ساز کونسل میں جاتا ہے، اس پر پالیسی سازوں، اساتذہ اور عام لوگوں میں شدید بحث جاری ہے۔ ان ترامیم کے نتائج کرناٹک اور اس سے آگے کی اعلیٰ تعلیمی انتظامیہ پر دور رس اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔