اسلام آباد،25 جون (ایس اونیوز/آئی این ایس انڈیا)پاکستانی صوبے خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین فیلیپو گرانڈی پر واضح کر دیا ہے کہ پاکستان اپنے ہاں مقیم افغان مہاجرین کی واپسی کے لیے تمام تر وسائل بروئے کار لائے گا۔پرویز خٹک نے یہ بات اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے سربراہ فیلیپو گرانڈی کے ساتھ پشاور کے وزیر اعلیٰ ہاؤس میں ہونے والی ایک ملاقات میں کہی۔ پاکستان نے افغان حکومت اور اقوام متحدہ کی درخواست پر اپنے ہاں مقیم افغان مہاجرین کے لیے قانونی رہائش کی مدت میں اس سال تیس جون تک توسیع کی تھی جبکہ پاکستان ہی میں خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی منتخب صوبائی اسمبلیاں بھی دو مختلف قراردادوں کے ذریعے اسلام آباد میں وفاقی حکومت سے یہ مطالبے کر چکی ہیں کہ افغان مہاجرین کو واپس ان کے وطن بھیجا جانا چاہیے۔دوسری جانب خیبر پختونخوا پولیس نے صوبے میں رہائش پذیر غیر قانونی افغان مہاجرین کے خلاف اپنا کریک ڈاؤن بھی تیز کر دیا ہے۔ پشاور پولیس کے سینیئر سپرنٹنڈنٹ عباس مجید مروت نے بتایا، پشاور میں غیر قانونی طور پر رہائش پذیر افغان باشندوں کے خلاف آپریشن کے دوران گزشتہ دو ہفتے میں چودہ سو سے زائد ایسے افغان باشندوں کو حراست میں لیا گیا۔عباس مجید مروت نے کہا، پولیس کو یہ واضح ہدایت کی گئی ہے کہ مکمل شناختی دستاویزات رکھنے والے (قانونی) افغان مہاجرین کو تنگ نہ کیا جائے۔ لیکن ہزارہا افغان باشندوں نے اپنے جعلی پاکستانی شناختی کارڈ بھی بنوا رکھے ہیں جبکہ ان کی ایک بڑی تعداد کے پاس جعلی افغان کارڈ بھی ہیں۔اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق پاکستان میں قریب پندرہ لاکھ افغان مہاجرین رجسٹرڈ ہیں جبکہ اتنی ہی تعداد میں افغان مہاجرین غیر قانونی طور بھی پاکستان میں مقیم ہیں۔ اس کے علاوہ UNHCR کی جانب سے شروع کردہ افغان مہاجرین کی پاکستان سے رضاکارانہ بنیادوں پر واپسی کا عمل بھی سست روی کا شکار ہے۔پاکستان اور افغانستان کے مابین طورخم کی سرحد پر حالیہ کشیدگی اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر پاکستان کے خلاف افغان شہریوں کی مہم نے پاکستان میں مقیم افغان باشندوں کی مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے اور اب انہیں واپس بھیجے جانے کے مطالبے زور پکڑ رہے ہیں۔پشاور کی تاجر برادری نے گزشتہ روز افغان مہاجرین کی ان کے وطن واپسی کا مطالبہ کرتے ہوئے ایک باقاعدہ احتجاجی جلوس بھی نکالا تھا۔ اس موقع پر مظاہرین گو، افغان گو کے نعرے لگاتے رہے۔ اس موقع پر تاجر برادری کی نمائندہ تنظیم کے سیکرٹری جنرل مومن خان کا کہنا تھا کہ پاکستان چار دہائیوں سے لاکھوں افغان مہاجرین کا بوجھ اٹھا رہا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، سب سے زیادہ نقصان صوبہ خیبر پختونخوا اور قبائلی عوام اٹھا رہے ہیں۔ پولیس اور سکیورٹی فورسز کے اعداد و شمار کے مطابق ان علاقوں میں جرائم میں بھی زیادہ تر یہی لوگ ملوث ہوتے ہیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ بعض افغان باشندے پاکستان مخالف بیرونی طاقتوں کے لیے جاسوسی کرتے بھی پائے گئے۔اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین یا یو این ایچ سی آر نے اس سال 60 ہزار افغان مہاجرین کی پاکستان سے افغانستان واپسی کے لیے رقوم مختص کی تھیں لیکن اس سال کے دوران اب تک صرف چھ ہزار افغان باشندے ہی واپس گئے ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ ان افغانوں کو واپسی کے وقت 200 ڈالر فی کس امداد بھی دی جاتی ہے تاہم طورخم سرحدی انتظامیہ کے مطابق واپس افغانستان جانے والے ایسے مہاجرین میں سے اکثر امدادی رقم وصول کرنے کے بعد چلے تو جاتے ہیں، لیکن دوسرے راستوں سے وہ جلد ہی پھر پاکستان پہنچ جاتے ہیں۔اعداد و شمار کے مطابق ضلع پشاور میں سات لاکھ کے قریب افغان مہاجرین رہائش پذیر ہیں۔ یہ لوگ افغانستان میں بدامنی کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنی معاشی سرگرمیوں کی وجہ سے پشاور سے واپس نہیں جانا چاہتے۔ ان میں سے زیادہ تر اپنے کاروبار کرتے ہیں اور انہیں پاکستانی حکومت یا بین الاقوامی امدادی اداروں کی جانب سے ملنے والی امداد نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ایسے زیادہ تر افغان مہاجرین پاکستان میں قریب چار عشروں تک مقیم رہنے کی وجہ سے اب واپس جانے پر تیار نہیں ہیں۔ ایک تیس سالہ افغان باشندے عبدالبصیر کا کہنا ہے، میں آٹھ سال کا تھا، جب اپنے والدین کے ساتھ یہاں آیا۔ یہیں پر میں نے تعلیم حاصل کی۔ کئی بار افغانستان گیا ہوں۔ یہاں میرے والدین نے اپنا کاروبار شروع کیا، جو اب میں نے سنبھال رکھا ہے۔ اب میرا افغانستان جانے کو دل نہیں کرتا۔عبدالبصیر نے بتایا، پاکستان کے خلاف بات کرنے والے افغان یہ ہرگز نہ بھولیں کہ یہاں تیس لاکھ سے زیادہ افغان رہائش پذیر ہیں اور پاکستان انہیں چار دہائیوں سے ہر قسم کی سہولت فراہم کر رہا ہے۔ یہاں زیادہ ترافغان لاکھوں کا کاروبارکر رہے ہیں جبکہ افغانستان میں ابھی تک قیام امن کے کوئی آثار نہیں ہیں اور ایسے میں ہم وہاں جا کر کیا کریں گے؟پاکستان بالخصوص صوبہ خیبر پختونخوا کے عوام اب افغان مہاجرین کے قیام کی مدت میں مزید توسیع کے حق میں نہیں ہیں۔ جہاں خیبر پختونخوا میں ان مہاجرین کی واپسی کے لیے پشاور حکومت پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے، وہیں پر پاکستانی قبائلی علاقوں میں بھی عوام افغان مہاجرین کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ پاکستانی حکومت نے پچھلی بار افغان مہاجرین کی ان کے وطن واپسی کی ڈیڈ لائن میں جو توسیع کی تھی، وہ اپنی نوعیت کا چوتھا فیصلہ تھا اور چھ ماہ کی یہ توسیعی مدت تیس جون کو ختم ہو رہی ہے۔