ساحل آن لائن - سچائی کا آیئنہ

Header
collapse
...
Home / ملکی خبریں / اسلام اور مسلمانوں کے خلاف خطرناک سازشیں  از:حفیظ نعمانی 

اسلام اور مسلمانوں کے خلاف خطرناک سازشیں  از:حفیظ نعمانی 

Wed, 29 Jun 2016 15:07:12  SO Admin   S.O. News Service

جہاں تک اپنے علم میں ہے وہ یہ ہے کہ اپنی حکومت بننے کے بعد پنڈت جواہر لال نہرو نے عرب ممالک کے مسلم سفیروں کو افطار کے لئے بلاناشروع کیا تھا جس میں انکے علاوہ مسلم وزراء اورمسلم ممبران پارلیمنٹ کو بھی بلایا جاتا تھا ۔یاد آتا ہے کہ برسوں یہ سلسلہ جاری رہا ۔اور کہیں سے دوسرے سرکاری افطار کی آواز نہیں آئی ۔
یہ 1957کے بعد کی بات ہے کہ قیصر باغ میں یوپی کانگریس کمیٹی کے دفتر میں روزہ افطار کا دعوت نامہ آیا ۔57 ؁ء میں ہی ہمارا تعلق ہوا تھا جب ہم نے الیکشن کا کام چھاپا تھا ۔اس پروگرام کے ذمہ دارہیم وتی نندن بہوگنا جی تھے ۔یہ یاد نہیں کہ وہ اسوقت کیا تھے ۔لیکن بڑوں میں صرف وہی تھے ۔اور آفس سکریٹری مسٹر دوبے انکے دست راست تھے یہ وہ سال تھے جب ہندوستان کی ہاکی ٹیم بھوپال کے اسلم شیر خاں کی قیادت میں کوئی بڑاکپ جیت کر آئی تھی ۔بہو گنا جی نے پوری ٹیم کو افطار میں بلایا تھا ۔ان کے علاوہ حافظہ پر بہت زور ڈالنے کے بعد بھی یاد نہیں آیا کہ روزے دار مسلمانوں کے علاوہ کو ئی غیر روزے دار تھا ۔انتہا یہ ہے کہ بہو گنا جی اور دوبے جی ہر طرف جا جا کر دیکھ رہے تھے کہ کسی پلیٹ میں کوئی چیز کم تو نہیں ہے لیکن یہ انتہا ہے کہ میزبان کی حیثیت سے بھی وہ افطار میں شریک نہیں تھے ۔اور ایک اہم بات یہ کہ وہ صرف افطار تھا کھانا نہیں تھا جس میں کسی طرح کا گوشت ہو ۔
یا د نہیں کہ بعد میں یہ روایت بن گئی ہو ۔اور یہ بھی یا د نہیں کہ پھر کب سے مرکزی کانگریس اور صوبائی کانگریس نے اسے ایک رسم بنا لیا ۔ہم نے جس دن سے یہ حدیث پرھی ہے کہ جو دعا روزہ افطار سے ٹھیک پہلے مانگی جاتی ہے وہ ضرور قبول ہوتی ہے اس دن سے ہم نے فیصلہ کرلیا ہے کہ صرف اپنے گھر میں افطار کریں گے ۔کچھ سیاسی کچھ صحافی سر گر میوں اور کچھ پریس کے کاموں کی وجہ سے ہر کسی سے تعلق ہوگیا تھا ۔اس لئے جب تک آنے جانے اور ملنے جلنے کے قابل رہے ہر جگہ سے افطار میں بلایا جاتا تھا ۔لیکن ہم کہیں نہیں جاتے تھے ایک بار ہمارے پڑوسی جگدیش ٹرانسپورٹ کمپنی کے مالک نے کانگریس کمیٹی کا افطار اپنے ذمہ لے لیا ۔انہوں نے ہم سے دعوت نامے چھپوائے تھے ۔وہ کسی طرح اس پر تیار نہیں ہوئے کہ ہمیں معاف کردیں اور ہم اس نزاکت کو انہیں سمجھانہیں سکے ۔یہ دور انکی صدارت کا تھا جو محترمہ محسنہ قدوائی صاحبہ کے صدر بنائے جانے کے صرف 24گھنٹے کے بعد صدر بنا دئے گئے تھے ۔
بہر حال ہمیں جانا پڑا ۔اور جب وہاں پہنچے تو اللہ گواہ ہے کہ ہر کرسی ان ہندو مردوں اور عورتوں سے بھر ی ہوئی تھی جنہیں انکے حلقہ کے امیدوار دعوت کھلانے لائے تھے ۔اور جن علماء کوبڑی خوشامد سے مدعو کیا گیا تھا وہ صرف ایک گلاس پانی کے لئے ہر جاننے والے کانگریسی کو آواز دے رہے تھے ۔لیکن کھانے والوں کی چیخ پکارجو روزہ کھولنے سے پہلے ہی ٹو ٹ پڑے تھے کچھ سننے نہیں دے رہی تھی ۔ہمارے میزبان نے کشتی لڑ کر چند گلاس شربت قبضہ میں لئے اور ہم سب جو اپنی آبرو اور روزہ کی عظمت بچائے کھڑے تھے شربت پی کر ان چادروں پر آئے جو دور نماز کے لئے بچھی تھیں ۔اور نماز پڑھکر سب دعائیں دیتے ہوئے اس لئے واپس آگئے کہ وہاں شرم سے جھکی ہوئی گردنوں کے علاوہ دیکھنے کی کوئی چیز نہیں تھی ۔
کل ایک خبر پڑھی کہ مرکزی کانگریس نے فیصلہ کیا ہے کہ اب وہ افطار پارٹی نہیں ہوگی جس پر آٹھ دس لاکھ روپے خرچ ہوتے تھے ۔اور وہ 5ستارہ ہوٹل میں ہوتی تھی ۔بلکہ اتنی ہی رقم کے افطار پیکٹ بنواکر غریب محلوں اور آبادیوں میں تقسیم کئے جائیں گے ۔
ہمارے نزدیک یہ فیصلہ جس نیت سے بھی کیا گیا ہو بہر حال اچھا ہے ۔اسکی وجہ یہ ہے کہ اب کسی بھی وزیر کے دولت خانہ پر افطار پارٹی ہو اسکی خبر میں یہ بعد میں بتایا جا تا ہے کہ فلاں دینی مدرسے سے اتنے استاذ اور اتنے طالب علم شریک ہوئے ۔اور اسکے بعد ان علماء کا نام ہوتا ہے جو شہر میں مسلمانوں کے دینی نمائندے سمجھے جاتے ہیں ۔بلکہ یہ ہوتا ہے کہ گورنر صاحب تھے اسپیکر صاحب تھے اور فلاں فلاں وزیر تھے ۔اور آخر میں کسی مسجد اور عید گاہ کے امام اور درگاہ کے سجادہ نشیں کا بھی ذکر ہوتا ہے کہ وہ بھی تھے ۔
ہم آجتک نہیں سمجھے کہ مسلمان کی عبادت کے لئے کوئی ہندو کیوں انتظام کرتا ہے ؟اور برسوں سے کیوں ہندو افطار پارٹیاں کررہے ہیں ؟اور کوئی نہیں کہتا کہ کوئی مسلمان وزیر ہندوؤں کی کسی بھی پوجا پاٹ کا انتظام کیوں نہیں کرتا ؟سونیا گاندھی اور راہل گاندھی سے روزہ سے کیا مطلب ؟اور وہ کیوں سمجھتے ہیں کہ اگر ہم افطار نہ کرائیں گے تو مسلمان وو ٹ کم ہو جائیں گے ؟ انہیں کیا معلوم روزہ کیا ہے ؟اور وہ کیا جانیں کہ روزہ افطار کرانے سے مسلمان کو کیا ملتا ہے ؟جو غیر مسلم کو نہیں ملے گا ۔اور جو ان افطار پارٹیوں میں بلایا جانا فخر کی بات سمجھتے ہیں وہ یہ نہیں سمجھتے کہ روزہ جیسی وہ عظیم عبادت جسکے لئے رب کریم نے فرمایا ہے کہ ’’الصوم لی‘‘روزہ میرے لئے ہے اور بڑے عالموں نے یہ بھی بتایا ہے کہ اسکے لئے کیا کیا کر نا چاہئے ؟کیوں کہ شاید دنیا میں کوئی چیز اتنی نازک نہیں ہے جتنا روزہ ہے کہ پانی کی ایک بوند سے ہی ٹو ٹ جاتا ہے وہ چاہے آب زم زم جیسا مبارک پانی ہو ۔حکومت اور وزیر کی نگاہوں میں معتبر بننے کے لئے جو روزہ دار جاتا ہے ۔کیا اسے معلوم نہیں ہے کہ وہاں کھجور اور پانی کے علاوہ یا پھلوں کے علاوہ ہر چیز ہندوؤں کی پکائی ہوئی ہوتی ہے ۔جنکے پاکی کے معیار اور اسلام کی پاکی کے معیار میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔
ہم نے جو تھوڑا سا پڑھا ہے ۔اس میں یہ بھی تھا کہ اگر تم نے نہیں دیکھا کہ گوشت کس نے کاٹا کس نے خریدا ہے کس نے پکایا اور تمہارے پا س کون لایا ہے ؟اسے اس لئے نہ کھاؤ کہ اسکا مسلمان کے لائق ہونا ضروری نہیں ۔سونیا گاندھی جو ابتک 5ستارہ ہوٹلوں میں کھلاتی رہیں وہ افطار نہیں سیاست تھی ۔اور اب جو پیکٹ بھیجناچاہتی ہیں ۔وہ اگر احمد پٹیل صاحب ایک مسلمان کی حیثیت سے اپنی نگرانی میں بنوادیں ۔اور اسکے لئے مسلمان حلوائیوں کی خدمات حاصل کریں تو یہ عنایت کریں ورنہ ہلدی رام کے سموسے اور مرچی لال کے پکوڑے کے بجائے شربت کی چھوٹی چھوٹی بوتیلیں بٹوادیں کھجور اور موسم کے پھل ساتھ میں رکھ دیں اور سو پچاس روپے کا ایک پیکٹ بنوادیں ۔اور صرف وہاں تقسیم کرائیں جہاں کے بارے میں معلوم ہو کہ وہاں مسجد بھی ہے اور مسلمان روزہ بھی رکھتے ہیں اور نماز بھی پڑھتے ہیں ۔یا مسجدوں میں آنے والے نمازیوں میں تقسیم کرادیں ۔اور ان سب باتوں کے بعد بھی یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ وہ کیوں کریں ؟جب کہ سونیا گاندھی اور راہل کا نہ خد ا پر ایمان ہے اور نہ اسلام کے ارکان پر ؟
ہم یہ سمجھ رہے ہیں کہ جیسے اسلام کی چمک کو ختم کرنے اور اسکی کشش کو بے اثر بنانے کی اسلام کے دشمنوں نے بہت سی سازشیں کی ہیں ۔ان میں ہی یہ سب بھی ہیں کہ روزہ کچھ نہیں افطار سب کچھ ہے ۔یا لیلۃ القدر اتنی اہم نہیں جتنا الوداع کا جمعہ ۔جس کو شاطر مسلمانوں نے اتنا اہم بنادیا کہ حکومت نے سرکاری چھٹی کردی جب کہ نہ قرآ ن میں ہے نہ حدیث میں اور نہ کسی بھی سعودی عرب جیسے ملک میں کوئی الوداع کو جانتا ہے ۔اور جو رمضان المبارک کے سب سے اہم دن اور اہم راتیں ہیں انہیں عبادت کے بجائے تفریح بنا دیا ۔ 
ایک بہت اہم اخبار کے ایک پورے صفحہ پر چھپنے والے مضمون کا عنوان ہے ’’رمضان المبارک‘‘ عید کی تیاری کا مہینہ‘‘اس اخبار کے مالک بھی مسلمان نہیں ہیں ۔مقصد یہ ہے کہ اصل عید ہے اور رمضان اسکی تیاری کا مہینہ ہے ۔اس طرح اودھ نامہ کی ایک سرخی ہے ۔’’رمضان کے مبارک ایام نے ختم کیا دن رات کا فرق‘‘اور خبر یہ ہے کہ فرزندان اسلام ،بازاروں اور ہوٹلوں میں کھانے پینے کی مشہور اشیا پر اس طرح ٹوٹے پڑتے ہیں کہ وہ بھول جاتے ہیں کہ انہیں گھر بھی جانا ہے ۔جبکہ اس سرخی کی خبر یہ ہونا چاہئے تھی کہ ہر کوئی آخری عشرہ میں دوزخ سے نجات کے لئے ’’لیلۃ القدر جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمانے کے مطابق 21-23-25-27-29ویں راتوں میں سے کوئی ایک رات ہے اس میں عبادت کرنے کے لئے رات دن عبادت میں مصروف ہیں کیوں کہ اللہ تعالی نے کسی بھی عبادت کے بارے میں سورئے لیلۃ القدر کے متعین نہیں فرمایا کہ کسکا کتنا ثواب ملے گا ؟ صرف اس مبارک شب کے بارے میں فرمایا ہے کہ یہ ایک رات ایک ہزار مہینوں کی عبادت سے بھی زیادہ ہے ۔
یہ بھی اسلام کے دشمنوں کی سازش ہے کہ رمضان المبارک میں تراویح میں ایک قرآن کو سب کچھ سمجھ لیا ۔اور 5پارے 3پارے یا 2پارے یا ڈیڑھ پارہ پڑھا کر 25کو ہر حال میں ختم کردیاجائے ۔جبکہ ہونا یہ چاہئے تھا کہ یا تو 29ویں شب کو ختم کیا جائے یا حافظ نہ ہوں تو 15رمضان سے تراویح میں قرآن عظیم شروع کیا جائے ۔اور 29کوختم کیا جائے تاکہ آخری عشرہ کی ساری برکتیں حاصل ہو جائیں ۔ہندوستان میں ہزاروں خوش نصیب وہ ہوں گے جنہوں نے رمضان میں عمرہ کیا اور عید وہیں کی ۔ان میں سے ایک ہم بھی ہیں ۔سب نے دیکھا ہوگا کہ دونوں حرم میں آخری عشرہ میں جگہ ملنا مشکل ہوتی ہے ۔اور شاید علما ء عرب کا رجحان یہ ہے کہ 27ویں شب لیلۃ القدر ہوتی ہے ۔اس رات کو تو وہ خوش نصیب ہوتا ہے جسے حدود حرم میں جگہ ملے ۔کعبۂ مکرمہ میں ہم نے ایک 27ویں شب کی تراویح جو توں پر چادر ڈال کر پڑھیں ۔اور قیام اللّیل کے بعد جب ہمارا بیٹا لینے کے کے لئے آیا تو وہ 10کلو میٹر ایک گھنٹہ میں طے کرسکا اور ہم اگر 15منٹ اور نہ جاپاتے تو سحری کا وقت ختم ہو چکا ہوتا ۔
یہ ہم سب ہندوستانی مسلمانوں کی کتنی بڑی محرومی ہے کہ جس آخری عشرہ میں اولوں کی طرح رحمت برستی ہے اور جس کی ایک شب قدر کی عبادت ایک ہزار مہینوں 85برس کی عبادت سے بھی زیادہ ہے ۔اس میں ہم بازاروں میں گناہ سمیٹ رہے ہوتے ہیں ۔وہ نامحروں کو دیکھنا ہو یا فضول خرچی ہو یا ہنسی مذاق میں خیرات ہو جن دیندار مسلمانوں نے عمرہ کے وقت حرمین شریفین کا آخری عشرہ دیکھا ہوگا اور اگر انہیں اپنے شہر اور اپنے محلے کی مسجد یاد آئی ہوگی تو اس لئے شرم سے گردن جھک گئی ہوگی کہ وہ بھی دوبارہ پڑھ کر تراویح کی سنت ادا کر دی جاتی ہے ۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ تک ہر رات شب قدر جیسی تھی ہر صحابیؓ رات کا اکثر حصہ مسجد میں گذارتے تھے ۔بعد میں حضرت عمرؓ نے تراویح میں کم از کم ایک قرآن کا حکم اس لئے دیا کہ اسلام بہت پھیل چکا تھا لیکن حرمین شریفین میں وہی ہوتا رہا جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہوتا تھا ۔صرف بیس سا ل پہلے تک لکھنؤ میں بھی مسجد یں زیادہ تھیں حافظ کم تھے ۔لیکن اب حافظ قرآن زیادہ ہو چکے ہیں ۔اب ہر مسجد میں محلہ کے مسلمانوں کو یہ کوشش کر نا چاہئے کہ ایک قرآن آخری عشرہ میں ہواور طاق راتوں میں اتنا قرآن پڑھا جائے کہ دو بجے تک مسجد بھری رہے ۔اور نماز پڑھنے والے اتنے ہوں کہ سڑکوں پر صفیں بچھانا پڑیں ۔اور بعد میں تہجد پڑھ کر گھر جائیں ۔
ہم نے رمضان کی راتوں میں جدہ میں بھی نماز یں پڑھی ہیں ۔وہاں بھی ہر مسجد میں ’’قیام اللیل‘‘کی نماز رات کو دو بجے کے بعد ہوتی ہے جو تہجد کی نماز ہے اور باجماعت ہوتی ہے ۔ہمارا مقصد صرف یہ ہے کہ شہر کی کسی بھی مسجد میں آخری عشرہ میں ’’الم تر کیف‘‘ سے تراویح کے بجائے قرآن شریف پڑھا جائے اور رات کا زیادہ سے زیادہ وقت مسلمان مسجدوں میں گذاریں تاکہ مسجد میں آنے والے ہر مسلمان کی قسمت میں وہ رات مبارک آئے اور ہر کسی کو ایک ہزار مہینوں کی عبادت یعنی85برس ہجری کے ثواب سے زیادہ ثواب ملے ۔ہم کتنے بد نصیب ہیں جن باتوں کا قرآن میں کوئی ذکر نہیں اسے تو اصل اسلام سمجھ لیا ۔اور جو اسلام اللہ تعالی نے لکھ کر بھیجا ہے اسکی طرف سے بے نیاز ہیں ۔
11ربیع الاول کی رات بھر ہم مولویوں کی تقریر یں اور شاعروں کی نعتیں پڑھکر یا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی معراج کی رات میں علماء کی تقریر یں سن کر یا 15ویں شعبان کی رات کو قبرستانوں میں تفریح کرکے گذار دیتے ہیں جسکے ثواب کا کہیں ذکر نہیں ہے ۔لیکن شب قدر کی تلاش میں پانچ راتیں خاص طور پر 27ویں شب رات بھر عبادت کرکے نہیں گذارتے جو اللہ تعالی کے فرمانے کے مطابق ایک ہزار مہینو ں کی عبادت کے ثواب سے بھی زیادہ مل جائے ۔یہ اسلام کے خلاف سازش نہیں تو اور کیا ہے ۔؟


Share: