بارہویں مالیاتی کمیشن نے اپنی سفارش میں کہا تھا کہ ہر دس سال میں پیکمیشن بنانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ سرکاری ملازمین کو تنخواہ میں سالانہ اضافہ سے 3 فیصد اور الاؤنس میں 5 فیصد کے اضا فہ کے ساتھ تنخواہ میں سالانہ 8 فیصد ضافہ ہو جاتا ہے جو مہنگائی سے نمٹنے کے لئے کافی ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پے کمیشن کے چیئرمین جسٹس اے کے ماتھر نے مالیاتی کمیشن کی سفارشات سے اتفاق کے باوجود تنخواہ میں بھاری بھرکم اضافہ کی سفارش کیوں کی؟اس کی ایک وجہ سمجھ میں آ تی ہے اور وہ ہے حکومت کا دباؤ۔ تنخواہ، الاؤنس اور پنشن میں اضافہ کی وجہ سے مرکزی حکومت کے خزانہ پر 1.02 لاکھ کروڑ اور ریاستوں پر 1.5 لاکھ کروڑ روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا جو جی ڈی پی کا 2 فیصد تک ہو سکتا ہے۔قابل غور ہے کہ زیادہ تر ریاستوں کی آمدنی کا بڑا حصہ پہلے ہی تنخواہ اور لاؤنس پر خرچ ہو جاتا ہے اور اس سفارش کے نفاذکیلئے ریاستی حکومت کومجبور کرنے سے وہ مالی خسارے کے تباہ کن تھپیڑے میں الجھ سکتے ہیں۔ظاہر سی بات ہے ریاستی سرکاروں کی مالی حالت کو مد نظر رکھ کر ہی ساتویں پے کمیشن کے نفاذ کا فیصلہ ہونا چا ہئے تھا۔مگر اپنی جلد بازی اور شہرت و مقبولیت کیلئے ملک کے خزانے کے غلط استعما ل کا الزام جھیل رہی مرکزی حکومت نے اس جانب غور کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔ایک طبقہ اس اضا فہ کو ریاستوں میں آ ئندہ سال ہونے والے اسمبلی انتخابات میں فائدہ حاصل کرنے کی پالیسی سے جوڑ کربھی دیکھ رہا ہے۔
آئین کے آرٹیکل 309 اور 312 میں سرکاری انتظامیہ اور آل انڈیا سروسز کی اجرت میں اضافہ کیلئے قانونی ہدایات موجود ہیں۔ 1946 میں پہلے پے کمیشن کی رپورٹ کے وقت ملک میں ملازمین کی کم از کم بنیادی تنخواہ 35 روپے تھی، جبکہ ملک کی فی کس آمدنی تقریبا 20 روپے ماہانہ تھی۔ اب سرکاری ملازمین کی اصل تنخواہ ہی بڑھ کر 18000. ماہانہ کردی گئی ہے، جبکہ اس وقت ہندوستان کی فی کس آمدنی صرف 7700 روپے ماہانہ ہے۔حالاں کہ فی کس آ مدنی کی یہ ریاضی سمجھ سے بالاتر ہے،اس لئے کہ بین الاقوامی سطح پر یہ رپورٹ عام ہوچکی ہے کہ حکومت ہند کے تمام تر دعووں اور افلاس میں کمی لانے کے اعلانات کے برخلاف آج بھی 15فیصد سے زائد ہندوستانی بھوکے پیٹ سوتے ہیں۔گزشتہ سال مئی 2015میں اقوام متحدہ کی فوڈ اینڈایگری کلچر آرگنائزیشن نے ہندوستان میں بھوک کے موضوع پرایک رپورٹ پیش کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ’’ہندوستان 194.6 ملین بھوکے پیٹ سونے والے بد نصیبوں کا ملک ہے۔‘‘ آج بھی اگر ملک گیر سطح پر عام شہریوں کی اقتصادی صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ مہنگائی نے عام لوگوں کی زندگی کو پہلے کے مقابلے کہیں زیادہ متزلزل کرکے رکھ دیا ہے۔اگر ملک کی فی کس آمدنی یقیناً7700روپے ہے تو ایک بھی ہندوستانی کو بھوکے پیٹ نہیں سونا چاہئے۔ ورنہ اس کا سیدھا سا مطلب یہی ہوگا کہ یہ ساری کمائی ملک کے مٹھی بھر سرمایہ داروں اورنوکرشاہوں کی تجوریوں میں جمع ہورہی ہے۔اگر یہ بات درست ہے تو یہی کہا جائے گا کہ غریبوں کی بھلائی کیلئے حکومت کے پاس لفظوں کی شعبدہ بازی کے سوا کوئی بھی سرمایہ نہیں ہے۔
گزشتہ29جون2016کو ساتویں پے کمیشن کی سفارشات نے عام لوگوں کے ذہن و فکر میں کئی پیچیدہ سوالات کھڑے کردیے ہیں۔تفصیلات کے مطابق اس پے کمیشن کے نفاذ کا راست فائدہ صرف مرکزی حکومت کے تحت زیر ملازمت47لاکھ اہلکاروں اورلگ بھگ 53لاکھ پینشن یافتگان کو ملے گا۔اس اضافہ کے نتیجے میں سرکاری خزانہ پر 1.02لاکھ کروڑ کا بوجھ پڑے گا۔ظاہر سی بات ہے کہ اس کی بھرپائی کیلئے عوام کی جیب ہی کاٹی جائے گی اور متنوع ٹیکس اور محصولات کے ذریعہ یہ خطیر رقم حکومت عام لوگوں سے ہی وصو لے گی۔اس پہلو پر دھیان دیا جائے تو یہی نتیجہ برآ مد ہوگا کہ اس فیصلے کے پس پردہ عام لوگوں کی زندگی اجیرن بنانے کی پالیسی کام کررہی ہے۔ملک کے عام شہریوں کے دل میں یہی بات گھر کرے گی کہ اگر این ڈی اے سرکار غریبوں کی ہمدرد ہے تو اس کے ذریعہ منریگا،صحت اور تعلیم جیسے اہم شعبوں میں دیے جانے والی فنڈ میں تخفیف کیو ں کی گئی۔کیاحکومت ہند کی نگاہ میں صرف98لاکھ افراد ہی مراعات اور سہولیات کے مستحق ہیں۔کیا صرف انہیں98لاکھ ہندوستانیوں نے اپنے ووٹوں کے ذریعہ این ڈی اے کو اقتدار پر بیٹھا یا ہے؟
یہ سارے حل طلب سوالات کے جواب مرکز کو ایک نہ ایک دن ضرور دینے ہوں گے۔اگر اس نے عام ہندوستانیوں کو مثبت جواب نہیں دیا تو عوام اپنے ووٹوں کے ذریعہ اس ناانصافی کا بدلہ ضرور لیں گے۔
ابھی چند ماہ پہلے کی بات ہے ،جب مرکزی حکومت نے اپنا بجٹ سنا یاتھا۔ اس وقت بھی ملک بھرمیں شدید مایوسی چھا گئی تھی اور لوگ یقین کے ساتھ کہنے لگے تھے کہ مرکز کے پاس عوام کو بے وقوف بنانے کے علاوہ کوئی مثبت منصوبہ سرے سے ہے ہی نہیں۔اگرچہ این ڈی اے نے اس بار کے اپنے بجٹ کوکسان دوست اور غریبوں کے لئے بتایا تھا۔مگر بجٹ کے اہم نکات کو باریکی سے دیکھنے والوں نے برملا کہنا شروع کردیاتھاکے بجٹ عوام کے توقعات کے خلاف اور مایوسی سے لبریز ہے۔اس بجٹ میں کسانوں، غریبوں اور اقلیتوں کے لئے کوئی خاص رعایات نظر نہیں آتی ہیں۔
کسانوں کو براہ راست اس بجٹ میں کیا ملے گا؟یہ بالکل بھی واضح نہیں ہے۔ سرکار نے 190000کروڑ روپے میں سے صرف 36000 کروڑ روپے کی رقم زراعت اور کسانوں کی بہبودی کے لئے مختص کی گئی ہے جو 2 فیصد کے برابر ہے۔ڈیژل کی قیمتوں میں اضافے سے بھی کسان براہ راست متاثر ہوں گے۔کیونکہ جیسے ہی پٹرول و ڈیژل کی قیمت بڑھتی ہے ویسے ہی ضروریات زندگی کی ہر شئے مہنگی ہو جاتی ہے اور کسان کے لئے یہ بہت ہی نقصان دہ ہوتا ہے ،کیونکہ فصل کے بونے ،کاٹنے اور مارکیٹ میں بیچنے تک ہر چیز کے دام اس کی فصل کو مہنگا کردیتے ہیں۔ اس کے علاوہ حکومت یہ بھی کہہ رہی ہے ک 6سالوں میں کسانوں کی آمدنی میں دو گنا اضافہ ہو جائے گا۔آپ اور ہم سب کو معلوم ہے کہ 6سال کے لئے کوئی بھی بونڈ یا ایف ڈی جب ہم کراتے ہیں تو رقم دگنی ہو ہی جاتی ہے۔ایسے میں حکومت نے کیا نیا دیا ہے محض خواب دکھانے کے۔کیا اس اونچے بول میں فریب کے سوا کچھ بھی نظرآ تا ہے۔چھ سال میں بونڈ دگنا ہوسکتا ہے تواگر اسی چھ سال کے بعد کسانوں کی آ مدنی دگنی ہوجاتی ہے تو اس میں حکومت ہند کی کیا کرشمہ سازی ہے۔
ماضی میں عموماً جب بجٹ آنے والاہوتا تھا تو عام آدمی کی دلچسپی بہت ہوا کرتی تھی اور بجٹ آنے سے پہلے ہی یہ چرچا شروع ہوجاتی تھی کہ دیکھئے کیا کیا سستا ہوتا ہے،لیکن اب بجٹ عام آدمی کے لئے نہیں بلکہ امیروں اور ماہرین کیلئے ہوگیا ہے۔اب حکومت کے بجٹ میں صرف ان ہی لوگوں کو زیادہ دلچسپی رہتی ہے جو لاکھوں ،کروڑوں ،اربوں کھربوں کی بات کرتے ہیں۔ تنخواہ پر جینے والا ہندوستانی مایوس ہی نظر آتا ہے،کیونکہ ضروریات زندگی مہنگی ہوجاتی ہیں۔ کپڑے ، دوائیں، کھانے پینے کی اشیاء، مو با ئل ، منرل واٹر، ہوائی جہاز کا سفر، ریلوے ٹکٹ، مصنوعی زیورات، وغیرہ سب مہنگے ہوگئے۔
اب ذرا مرکزی وزیر مالیات مسٹرارون جیٹلی کے بجٹ کو دیکھئے ،جس میں عام لوگوں کیلئے مایوسی اور ناامیدی بڑھانے کے سوا کچھ بھی نہیں تھا اوردوسری جانب ساتویں پے کمیشن کے ذریعہ صرف 98لاکھ ہندوستانیوں کو راست طورپر فائدہ پہنچانے کے اس منصوبہ کو دیکھئے ۔کیا اس سے یہ واضح نہیں ہورہا ہے کہ مرکزی حکومت بڑی جلد بازی میں امیروں کو اورزیادہ امیر اور غریبوں کو اور زیادہ تبا کردینے کا تہیہ کر چکی ہے اور اسی پالیسی کے زیر اثر عوام کوچوٹ پہنچانے کا عمل تیز تر کردیا گیا ہے۔