ساحل آن لائن - سچائی کا آیئنہ

Header
collapse
...
Home / ریاستی خبریں / کرناٹک حکومت کے افسران جے پی سی کے سامنے وقف اراضی تنازعہ پر پیش کریں گے رپورٹ

کرناٹک حکومت کے افسران جے پی سی کے سامنے وقف اراضی تنازعہ پر پیش کریں گے رپورٹ

Thu, 26 Dec 2024 11:12:15  Office Staff   S.O. News Service

بنگلورو ، 26/دسمبر (ایس او نیوز /ایجنسی) کرناٹک میں وقف اراضی سے متعلق تنازعات کے معاملات مسلسل خبروں میں ہیں۔ ’وقف (ترمیمی) بل 2024‘ کے جائزے کے لیے جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی مختلف فریقوں سے مشاورت کر رہی ہے۔ اس سلسلے میں، کرناٹک حکومت کے افسران نے ریاست میں وقف اراضی کے بڑھتے ہوئے تنازعات کا مسئلہ جے پی سی کے سامنے اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔

قابل ذکر ہے کہ بی جے پی رکن پارلیمنٹ جگدمبیکا پال کی قیادت میں مشترکہ پارلیمانی کمیٹی (جے پی سی) جمعرات کو وقف ترمیمی بل پر سماعت شروع کرے گی۔ 2 روزہ اجلاس میں کرناٹک، مدھیہ پردیش، راجستھان، اتر پردیش، اڈیشہ اور دہلی سمیت کئی ریاستی حکومتوں کے نمائندوں سے ان پٹ حاصل کیے جائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ کرناٹک کے افسران نے وقف اراضی تنازعہ جے پی سی کے سامنے پیش کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کرناٹک کے افسران کے اس بیان کے بعد دہلی کے فوڈ اینڈ سپلائیز کے وزیر عمران حسین جمعہ کو کمیٹی سے خطاب کرنے والے ہیں۔

یہ تنازعہ بی جے پی لیڈروں کے دعویٰ کے ساتھ شروع ہوا کہ کرناٹک میں کسانوں کی 1500 ایکڑ سے زیادہ زرعی اراضی وقف بورڈ کے ذریعہ قبضہ کی جا رہی ہے۔ اپنے کرناٹک کے دورے کے دوران جگدمبیکا پال نے متاثرہ کسانوں سے بات چیت کی جنھیں مبینہ طور پر وقف املاک پر تجاوزات کے الزام میں سرکاری نوٹس موصول ہوئے تھے۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ کے نتائج کا حوالہ دیتے ہوئے، کمیٹی نے ریاستی حکومتوں سے وقف زمینوں پر غیر مجاز تجاوزات کے بارے میں جامع ڈیٹا طلب کیا ہے۔ یو پی اے حکومت کی طرف سے 2005 میں قائم کی گئی سچر کمیٹی نے ہندوستان میں مسلمانوں کے سماجی و اقتصادی حالات کا مطالعہ کیا۔

واضح رہے کہ گزشتہ 8 اگست کو لوک سبھا میں پیش کیے گئے وقف (ترمیمی) بل کو سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ ناقدین کا استدلال ہے کہ مجوزہ ترامیم مسلمانوں کے مذہبی حقوق کی خلاف ورزی کرتی ہیں، جبکہ حکمراں بی جے پی کا کہنا ہے کہ یہ تبدیلیاں وقف بورڈ کے کام میں شفافیت اور جوابدہی کو یقینی بنائیں گی۔ جیسے جیسے بحث آگے بڑھ رہی ہے، تمام نظریں پارلیمانی پینل کے نتائج پر ہیں، جس کے پورے ہندوستان میں وقف املاک کے انتظام پر دور رس اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔


Share: