نئی دہلی ، 25/دسمبر (ایس او نیوز /ایجنسی)دہلی کے مہرولی آرکیالوجیکل پارک میں موجود دو قدیم تاریخی یادگاروں کو ممکنہ انہدام کا خطرہ لاحق ہے۔ یہ یادگاریں عاشق اللہ کی درگاہ اور بابا فرید کی چلہ گاہ ہیں، جو بارہویں اور تیرہویں صدی کے اہم تاریخی آثار ہیں۔ ان یادگاروں کو بچانے کے لیے سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی گئی تھی، اور اب اس سلسلے میں ایک اہم اطلاع سامنے آئی ہے۔ اے ایس آئی نے سپریم کورٹ میں اپنی رپورٹ پیش کی ہے جس میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ دونوں یادگاریں مذہبی اہمیت کی حامل ہیں۔
اے ایس آئی (آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا) نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ مہرولی پارک کے اندر موجود 2 قدیم یادگاریں مذہبی اہمیت رکھتی ہیں، کیونکہ مسلم عقیدت مند روزانہ عاشق اللہ کی درگاہ پر حاضری دیتے ہیں۔ ساتھ ہی بڑی تعداد میں لوگوں کی آمد صوفی سَنت بابا فرید کی چلہ گاہ پر بھی ہوتی ہے۔ عدالت کے سامنے پیش رپورٹ میں اے ایس آئی نے یہ بھی بتایا کہ شیخ شہاب الدین (عاشق اللہ) کی قبر پر ایک نوشتہ موجود ہے جس میں اس کی تعمیر 1317ء میں ہونے کا تذکرہ ہے۔
اے ایس آئی کا کہنا ہے کہ بازآبادکاری اور تحفظ کے لیے ڈھانچہ میں ہوئی تبدیلی نے اس جگہ کی تاریخیت کو متاثر کیا ہے۔ یہ مقبرہ پرتھوی راج چوہان کے قلعہ کے قریب ہے۔ یہ قدیم یادگار اور مقام آثار قدیمہ و باقیات ایکٹ کے مطابق 200 میٹر کے ریگولیٹیڈ ایریا میں آتا ہے۔ اس لیے کسی بھی مرمت، تجدیدکاری یا تعمیری کام کو اہل اتھارٹی سے اجازت لینے کے بعد ہی کیا جانا چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں : مہرولی بلڈوزر کارروائی پر دہلی ہائی کورٹ میں ہوئی سماعت، 467 باشندوں کے شناختی دستاویزات جمع کرنے کی ہدایت
اے ایس آئی کی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ دونوں قدیم یادگاروں کا عقیدتمند اکثر دورہ کرتے ہیں۔ کچھ لوگ اپنی خواہش کی تکمیل کے لیے عاشق اللہ درگاہ پر موم بتی جلاتے ہیں، جبکہ بری روحوں اور برائی سے چھٹکارا پانے کے لیے چلہ گاہ پر جاتے ہیں۔ ساتھ ہی رپورٹ میں مطلع کیا گیا ہے کہ یہ مقام ایک خاص مذہبی طبقہ کے مذہبی جذبات اور عقیدہ سے بھی جڑا ہوا ہے۔
واضح رہے کہ عدالت عظمیٰ میں ضمیر احمد جملانا نے عرضی داخل کر دہلی کے مہرولی آرکیالوجیکل پارک کے اندر موجود صدیوں پرانے مذہبی ڈھانچوں کے تحفظ کا مطالبہ کیا تھا۔ عرضی میں کہا گیا ہے کہ دہلی ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ڈی ڈی اے) نے تجاوزات ہٹانے کے نام پر ڈھانچوں کو ان کی تاریخی اہمیت کا اندازہ کیے بغیر منہدم کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ ضمیر احمد نے دہلی ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف 8 فروری کو سپریم کورٹ کا رخ کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر وی کے سکسینہ کی قیادت والی مذہبی کمیٹی ان ڈھانچوں کو منہدم کرنے کا فیصلہ کر سکتی ہے، حالانکہ یہ کمیٹی کسی ڈھانچہ کی تاریخیت طے کرنے کے لیے مناسب پلیٹ فارم نہیں ہے۔