واشنگٹن، 14/دسمبر (ایس او نیوز /ایجنسی) شام میں امریکہ اور ترکی بشارالاسد کی معزولی سے یکساں طور پر فائدہ اٹھا چکے ہیں، لیکن اب دونوں کے درمیان ناراضگی بڑھتی نظر آ رہی ہے۔ ترکی نے امریکی حمایت یافتہ شامی گروپ سیریئن ڈیموکریٹک فورسز (SDF) پر حملہ کیا ہے، جس پر امریکہ ناراض ہے۔ ترکی منبج شہر اور شمالی شام میں SDF کے جنگجوؤں پر حملہ کر رہا ہے۔
امریکی حکام نے بتایا کہ اس ہفتے کے شروع میں، ایس ڈی ایف نے ایک امریکی ایم کیو 9 ریپر ڈرون کو ترک ڈرون سمجھ کر مار گرایا۔ ایک امریکی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر العربیہ کو بتایا کہ "ہم دیکھیں گے کہ اگلے 48 گھنٹوں میں کیا ہوتا ہے، لیکن اگر دوبارہ ایسا ہوا تو ہم اسے برداشت نہیں کریں گے۔‘‘
ایس ڈی ایف کے جنگجوؤں کو نشانہ بنانے کے حوالے سے امریکہ اور ترکی کے درمیان ماضی میں تنازعات ہوتے رہے ہیں۔ دسمبر 2022 میں امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے ڈائریکٹر بل برنز نے مبینہ طور پر اپنے ترک ہم منصب کو خبردار کیا تھا کہ شام میں ترکی کے فضائی حملے امریکی فوج کے لیے خطرہ ہیں۔
اکتوبر 2023 میں، ایک امریکی F-16 لڑاکا طیارے نے ایک ترک ڈرون کو مار گرایا۔ ڈرون امریکی فوجیوں سے آدھے کلومیٹر سے بھی کم فاصلے پر امریکی پابندی والی سرحد میں داخل ہوا تھا۔ امریکہ بارہا ترکی کو متنبہ کرتا رہا ہے کہ وہ اپنے فوجی اڈوں کے قریب اپنے ڈرون نہ اڑائے۔
امریکہ ایس ڈی ایف کے ساتھ اپنی شراکت داری کو اہم سمجھتا ہے۔ مشرق وسطیٰ کے لیے اعلیٰ امریکی اہلکار جنرل ایرک کوریلا نے منگل کے روز شام میں کئی اڈوں کا دورہ کیا اور امریکی فوجیوں اور ایس ڈی ایف کے اہلکاروں سے ملاقات کی۔ بعد میں اس نے عراق کا سفر کیا، جہاں اس نے داعش کو شکست دینے اور عراق، اردن، لبنان اور اسرائیل سمیت خطے میں اس کے اتحادیوں کی سلامتی کے لیے امریکہ کے عزم کا اعادہ کیا۔ شام کے اندر ایس ڈی ایف کے ٹھکانوں پر حملے امریکی حکام کے لیے پریشانی کا باعث بن گئے ہیں۔ اسی کے پیش نظر امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن رواں ہفتے ترکی کا دورہ کریں گے۔
8 دسمبر کو داعش کے اہداف پر حملے کے بعد، امریکی اہلکار جنرل کریلا نے کہا کہ 'اس میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ امریکا داعش کو شام کی صورتحال سے فائدہ اٹھانے نہیں دے گا۔ انھوں نے کہا کہ 'شام میں تمام تنظیموں کو جان لینا چاہیے کہ اگر وہ کسی بھی طرح سے داعش کے ساتھ شراکت یا حمایت کرتے ہیں تو ہم ان کا احتساب کریں گے۔