نئی دہلی، 9/دسمبر (ایس او نیوز /ایجنسی) سپریم کورٹ نے پیر کو مفاد عامہ کی ایک عرضی کو خارج کر دیا، جس میں سیاسی پارٹیوں کو کام کی جگہ پر خواتین کے جنسی ہراسانی کے روک تھام، ممانعت اور ازالہ ایکٹ، معروف ’پوش ایکٹ‘ کے دائرہ میں لانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس منموہن کی بنچ نے عرضی گزار سے کہا کہ پہلے وہ اس معاملے میں الیکشن کمیشن سے رابطہ کریں۔ الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے جو سیاسی پارٹیوں کے کام کاج کو دیکھتا ہے اور ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھتا ہے۔
عدالت کے مشورے پر عرضی گزار کی جانب سے سینئر وکیل شوبھا گپتا نے حامی بھری کہ ان کے موکل اپنی شکایت لے کر الیکشن کمیشن کے پاس جائیں گے۔ اس دوران سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ اگر الیکشن کمیشن مناسب کارروائی نہیں کرتا ہے تو عرضی گزار کسی بھی مناسب عدالتی فورم سے رجوع کر سکتا ہے۔ عدالت نے اپنے حکم میں کہا کہ ’’عرضی کا نمٹارا کرتے ہوئے عرضی دہندہ کو اہل اتھارٹی سے رابطہ کرنے کی آزادی دی جاتی ہے۔ اگر عرضی گزار کی شکایت کا حل نہیں تلاش کیا جاتا ہے تو وہ قانوںی عمل کے ذریعہ عدالت سے رجوع کر سکتا ہے۔‘‘
اس مفاد عامہ عرضی کانگریس، بھارتیہ جنتا پارٹی، مارکسوادی کمیونسٹ پارٹی، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا، ترنمول کانگریس، راشٹروادی کانگریس پارٹی، عام آدمی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی جیسی بڑی سیاسی جماعتوں کو مدعا علیہ بنایا گیا تھا۔ عرضی میں الزام لگایا گیا کہ ان پارٹیوں نے ’پوش ایکٹ‘ پر عمل نہیں کیا ہے، خصوصاً داخلی شکایات کمیٹی (آئی سی سی) کی تشکیل میں۔
عرضی گزار نے یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ تمام سیاسی پارٹیاں ’پوش ایکٹ‘ کے سیکشن 4 کے تحت آئی سی سی تشکیل دیں ساتھ ہی یہ اعلان کریں کہ پارٹیوں میں کام کرنے والے افراد ایکٹ کے سیکشن 2 (ایف) کے تحت ملازمین کی تعریف میں آتے ہیں۔ عرضی میں یہ بھی کہا گیا کہ الیکشن کمیشن کو یہ یقینی بنانا چاہیے کہ کسی سیاسی پارٹی کو رجسٹریشن اور پہچان صرف اسی صورت میں دیا جائے جب وہ ’پوش ایکٹ‘ پر عمل کرے۔