ممبئی، 10/دسمبر (ایس او نیوز /ایجنسی)ایودھیا میں رام مندر کی پران پرتشٹھا سے قبل پورے ملک میں جشن منایا گیا اور ریلیاں نکالی گئیں، تاہم کچھ ہندوتوا ذہنیت رکھنے والے افراد نے اس موقع پر اقلیتی طبقہ کو پریشان کیا۔ مہاراشٹر میں میرا روڈ پر بھی ایسا ہی منظر دیکھنے کو ملا، جس کے بعد فرقہ وارانہ تشدد شروع ہو گیا تھا۔ بعد میں بڑی تعداد میں مقامی مسلمانوں کو ملزم بنا کر گرفتار کر جیل بھیج دیا گیا۔ اس معاملے میں بامبے ہائی کورٹ نے 14 مسلم ملزمین کو ضمانت دینے کا فیصلہ کیا، جن پر یکم جنوری کو رام مندر پران پرتشٹھا کے موقع پر مبینہ تشدد میں شامل ہونے کا الزام تھا۔
جسٹس این جمعدار کی سنگل بنچ نے پیر کے روز اس معاملے پر سماعت کی اور کہا کہ پہلی نظر میں یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اس دن رام مندر پران پرتشٹھا کا جشن منا رہے قافلے میں شامل لوگوں پر حملہ کی سازش پہلے سے تیار کی گئی تھی۔ جج نے کہا کہ ملزمین کی حراست مزید بڑھانے کی دلیل کمزور ہے۔ جج نے سی سی ٹی وی فوٹیج کا حوالہ بھی دیا اور کہا کہ ان میں ملزمین کو کسی بھی شکایت دہندہ یا کسی دیگر شخص پر ظلم کرتے نہیں دیکھا جا سکتا ہے۔
عدالت نے اپنی بات رکھتے ہوئے کہا کہ جانچ پوری ہو چکی ہے۔ چونکہ ملزمین کی سماج میں جڑیں ہیں، اس لیے ان کے انصاف سے بچ نکلنے کا امکان بھی کم ہے۔ بنچ نے اس بات پر بھی غور کیا کہ سبھی ملزمین جنوری سے حراست میں ہیں اور ٹرائل کے جلد ختم ہونے کا بھی امکان نہیں ہے۔ اس لیے آگے حراست بڑھانا غیر ضروری ہے۔
واضح رہے کہ ملزمین پر تعزیرات ہند کی دفعات اور اسلحہ قانون کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔ ان سبھی لوگوں کو ٹھانے ضلع کے سیشن کورٹ کی طرف سے ضمانت دینے سے انکار کر دیا گیا تھا۔ اس کے بعد سبھی ملزمین نے ہائی کورٹ کا رخ کیا تھا۔ پولیس کے مطابق ملزمین 60-50 لوگوں کی بھیڑ کا حصہ تھے۔ ان لوگوں پر رام مندر پران پرتشٹھا کا جشن منا رہے لوگوں کو گھیرنے، ان کے خلاف نعرہ بازی کرنے اور حملہ کرنے کا الزام تھا۔