نئی دہلی، 12/دسمبر (ایس او نیوز /ایجنسی) راجیہ سبھا چیئرمین جگدیپ دھنکھڑ کے رویے پر اپوزیشن نے شدید ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں نے ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا نوٹس پہلے ہی راجیہ سبھا سکریٹری کو سونپ دیا ہے۔ آج انڈیا اتحاد کے رہنماؤں نے اس معاملے پر ایک پریس کانفرنس کی، جہاں ملکارجن کھڑگے نے سخت الفاظ میں کہا کہ ’’راجیہ سبھا چیئرمین (جگدیپ دھنکھڑ) حکومت کے ترجمان کی طرح کام کر رہے ہیں۔ وہ ایوان میں اراکین پارلیمنٹ کو نصیحت کرتے ہیں اور اپوزیشن کے اراکین کو بولنے نہیں دیا جاتا۔ چیئرمین کا رویہ اراکین کو اسکول کے ہیڈماسٹر کی طرح ڈانٹنے جیسا ہے۔‘‘ مزید انہوں نے کہا کہ ’’مجھے یہ کہنے میں کوئی جھجک نہیں کہ ایوان میں رخنہ پیدا ہونے کی سب سے بڑی وجہ چیئرمین خود ہیں۔‘‘
راجیہ سبھا چیئرمین جگدیپ دھنکھڑ کے رویہ پر اپنی مایوسی ظاہر کرتے ہوئے پریس کانفرنس میں کھڑگے نے کہا کہ ’’عام طور پر اپوزیشن چیئرمین سے پروٹیکشن مانگتا ہے، وہی اپوزیشن کے محافظ ہوتے ہیں۔ لیکن اگر خود چیئرمین برسراقتدار طبقہ اور وزیر اعظم کی تعریف و توصیف کر رہے ہوں تو اپوزیشن کی کون سنے گا؟ چیئرمین ہماری طرف توجہ نہیں دیتے، لیکن برسراقتدار طبقہ کو بولنے کے لیے اشارہ کرتے ہیں۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’’جب اپوزیشن حکومت سے سوال پوچھتا ہے تو چیئرمین برسراقتدار طبقہ کے جواب دینے سے پہلے ہی ان کی ڈھال بن کر کھڑے رہتے ہیں۔ چیئرمین کے رویہ نے ملک کے وقار کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ انھوں نے ملک کی پارلیمانی تاریخ میں ایسی حالت پیدا کر دی ہے کہ ہمیں ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانی پڑی ہے۔ ان کے ساتھ ہماری کوئی ذاتی دشمنی یا سیاسی رنجش نہیں ہے۔ ہم نے بہت سوچ سمجھ کر، ملک کی جمہوریت اور آئین کو بچانے کے ارادے سے مجبوری میں یہ قدم اٹھایا ہے۔‘‘
کانگریس صدر اور راجیہ سبھا میں حزب اختلاف کے قائد ملکارجن کھڑگے نے بہت تفصیل کے ساتھ اپنی بات پریس کانفرنس میں رکھی اور بتایا کہ راجیہ سبھا چیئرمین کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا فیصلہ کیوں کیا گیا۔ کھڑگے کے ذریعہ کہی گئی باتوں کی حمایت پریس کانفرنس میں موجود انڈیا بلاک کے اراکین پارلیمنٹ نے بھرپور انداز میں کی اور کہا کہ انھوں نے جو بھی باتیں کہی ہیں وہ بالکل درست ہیں۔ آئیے نیچے دیکھتے ہیں کہ انڈیا بلاک کے کس لیڈر نے پریس کانفرنس میں کیا باتیں کہیں۔
سرفراز احمد (رکن راجیہ سبھا، جے ایم ایم): حزب اختلاف کے قائد کھڑگے نے راجیہ سبھا چیئرمین اور تحریک عدم اعتماد کے سلسلے میں جو کچھ بھی کہا ہے، ہم اس کی پوری حمایت کرتے ہیں۔ میں نے آج تک کی اپنی سیاسی زندگی میں ایسا چیئرمین نہیں دیکھا ہے۔ آج جس طرح سے جمہوریت اور جمہوری اداروں کو برباد کیا جا رہا ہے، ہم سبھی اسی کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں۔
محمد ندیم الحق (رکن راجیہ سبھا، ترنمول کانگریس):راجیہ سبھا کے چیئرمین کا اپوزیشن کے تئیں رویہ ٹھیک نہیں ہے۔ برسراقتدار طبقہ کو بولنے کا پورا موقع دیا جاتا ہے، لیکن ہمیں بولنے کا موقع ملتے ہی ایوان ملتوی کر دیا جاتا ہے۔ یہ رویہ پوری طرح سے جانبداری کو ظاہر کرتا ہے۔
جاوید علی خان (رکن راجیہ سبھا، سماجوادی پارٹی):راجیہ سبھا کے اندر اپوزیشن کی موجودگی کو چیئرمین صاحب نے پوری طرح سے مسترد کر دیا ہے۔ ’نتھنگ وِل گو آن ریکارڈ‘ (کچھ بھی ریکارڈ میں نہیں جائے گا)، یہ جملہ میں نے جتنا اس ایوان میں سنا ہے، اتنا پہلے کبھی نہیں سنا۔ اپوزیشن کے لیڈران کچھ بھی کہنا چاہیں تو حکم جاری ہو جاتا ہے ’نتھنگ وِل گو آن ریکارڈ‘۔ اس لیے ہمیں مجبوری میں ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانا پڑ رہا ہے۔
منوج جھا (رکن راجیہ سبھا، آر جے ڈی):شخص اور اس کے وقار کا مسئلہ نہیں ہے، یہ مسئلہ نظام اور اس کی بحالی کا ہے۔ برسراقتدار طبقہ کے اتفاق رائے سے اگر اپوزیشن کو غائب کرنے کی کوشش ہوگی تو کیسے چلے گا۔ اس لیے میں نے کہا کہ یہ شخص کا سوال نہیں ہے۔ بات جمہوریت کے بنیادی اصولوں کو بحال کرنے کی ہے۔ میرے سارے ساتھی پارلیمنٹری ڈیموکریسی ہم سے بہتر جانتے ہیں۔
برسراقتدار طبقہ کے لوگ جس طرح کی زبان اور الفاظ کا استعمال کر رہے ہیں، اس سے نہ صرف تکلیف ہوتی ہے، ہمیں یہ بھی لگتا ہے کہ کل کو جب اقتدار کی تبدیلی ہوگی، تب کیا ہم پارلیمنٹری ڈیموکریسی کو بحال کر پائیں گے؟ چاہے وزیر اعظم کے قریبی شخص اڈانی کا معاملہ ہو، یا پھر سنبھل تشدد، منی پور یا بے روزگاری... سارے معاملوں کو خارج کر دیا گیا۔ ہماری یہ کوشش کسی شخص کے خلاف نہیں ہے، بلکہ ایک ادارہ کا بہتر سلوک ہو، اسے بحال کرنے کی کوشش ہے۔
سنجے راؤت (رکن راجیہ سبھا، شیوسینا یو بی ٹی):حزب اختلاف کے قائد ملکارجن کھڑگے نے پوری بات سبھی کے سامنے رکھی ہے۔ اسٹیج پر ملک کے لیڈران ہیں، جو آئین اور جمہوریت کو بچانے کے لیے ایک ساتھ آئے ہیں۔ میں خود ایوان میں 22 سال سے ہوں اور میں نے کئی چیئرمین کو ایوان میں دیکھا ہے، لیکن آج جو حالت ہے، وہ بہت خوفناک ہے۔ چیئرمین ایوان نہیں بلکہ سرکس چلا رہے ہیں۔ چیئرمین ایوان شروع ہونے کے بعد 40 منٹ خود ہی بولتے ہیں۔ پھر باقی کے وقت میں وہ برسراقتدار طبقہ کے اراکین پارلیمنٹ کو اکساتے ہیں۔
پارلیمنٹ کی ایک تاریخ ہے، لیکن چیئرمین اسے ختم کرنے میں لگے ہیں، اس لیے ہم یہ عدم اعتماد کی تحریک لے کر آئے ہیں۔
ڈاکٹر فوزیہ خان (رکن راجیہ سبھا، این سی پی-ایس پی):پارلیمنٹ میں ہمارے مائک اور کیمرے سنسر ہوتے ہیں۔ ہمیں بولنے کے لیے نپا تلا وقت ہوتا ہے۔ لیکن برسراقتدار طبقہ جتنا چاہے ہمیں بدنام کرے، انھیں بولنے کی اجازت ملتی ہے۔ یہ اس بات کا احساس کرواتا ہے کہ آج اپوزیشن کی آواز کو دبا کر انھیں ختم کرنے کا کام کیا جا رہا ہے۔
آج پارلیمنٹ ایک ایونٹ مینجمنٹ کی طرح چلایا جا رہا ہے، جہاں بیشتر وقت چیئرمین کا ہی چہرہ دکھایا جاتا ہے۔ پارلیمنٹ کا نشریہ اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ ملک دیکھ سکے کہ ایوان میں کیا ہو رہا ہے، لیکن آج ایوان میں وہی دکھایا جا رہا ہے جو برسراقتدار طبقہ اور چیئرمین چاہتے ہیں۔