نئی دہلی، 18/دسمبر (ایس او نیوز /ایجنسی)میں سب سے پہلے آئین سازوں کی بصیرت کو خراج تحسین پیش کرتی ہوں۔ ایک نوجوان رکن پارلیمان کے طور پر، میں اپنی امیدوں کو آئین کے اصولوں سے جوڑ کر یہ کہنا چاہتی ہوں کہ آج ملک میں دلت، اقلیتوں، اور پسماندہ طبقات کو اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے سخت جدوجہد کرنی پڑ رہی ہے۔ ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کے ایک قول کو یاد کرتے ہوئے اپنی بات شروع کروں گی، انہوں نے کہا تھا، ’’ہندوستان کا آئین ایسا آئین ہے جو مساوات، آزادی، اور بھائی چارے کی بنیاد پر سماج کو ایک دھاگے میں پروتا ہے۔‘‘ لیکن آج ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آئین کا وجود تو ہے، مگر اسے نافذ کرنے والوں نے اس کے اصولوں پر عمل کرنے کا عزم کھو دیا ہے۔
آج ہندوستان میں ہر طبقے کو کسی نہ کسی چیلنج کا سامنا کرنا پڑ رہاہے مگر اقلیتوں اور بطور خاص مسلمانوں پر جو قہر ٹوٹا ہے وہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔ یہ لوگ صرف اپنی مذہبی پہچان کی وجہ سے نشانہ بنائے جارہے ہیں۔آئین کا آرٹیکل ۱۵؍ کہتا ہے کہ کسی بھی شہری کے ساتھ مذہب ،ذات پات یا کسی اور وجہ سے امتیاز نہیں برتا جانا چاہئے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ حالات اس قدر بگڑ چکے ہیں کہ نفرت انگیزی پر مبنی تقریریں، ہجومی تشدد اور بلڈوزر کے ذریعہ لوگوں کے گھروں کو منہدم کردینے کے واقعات عام ہوگئے ہیں۔ خاص طور پر اتر پردیش میں، جہاں ایسا لگتا ہے جیسے قانون کے نام پر جنگل راج چل رہاہے۔
سنبھل میں جو ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ پولیس کی نگرانی میں بے قصور افراد کا قتل ہوا لیکن حکومت نے خاموشی اختیار کرلی ہے۔ اقلیتوں کے خلاف تشدد بڑھتا جارہاہےاور برسراقتدار افراد یاتو آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں یا پھر ان وارداتوں کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔ حدتو تب ہوجاتی ہے جب عدالتوں کی بات بھی نظر انداز کردی جاتی ہے۔ سپریم کورٹ نے ہجومی تشدد پر ۱۱؍ نکاتی ہدایات جاری کی گئی تھیں۔ اس میں صاف کہا گیا تھا کہ ریاستی حکومتیں اور پولیس اس طرح کے واقعات کو روکنے اور ملزمین کے خلاف سخت کارروائی کیلئے ذمہ دار ہیں لیکن آج بھی ان ہدایات پر عمل نہیں ہورہاہے۔ حال یہ ہے کہ ہجومی تشدد کو روکنے کے بجائے برسراقتدار افراد آگ میں گھی ڈالنے کا کام کررہے ہیں۔ ان کی زبان سے ایسی باتیں نکلتی ہیں جو نفرت کو اور بڑھاوا دیتی ہیں۔ یہ بد امنی اس حدتک پھیل چکی ہے کہ ہمارے ملک کی سیکولر پہچان پر بھی سنگین سوال اٹھنے لگے ہیں۔
سال کی شروعات میں ہی کئی ریاستوں میں دکانداروں کو اپنے نام بورڈ پر لگانے کیلئے مجبور کیا گیا۔ اسے صحت اور سلامتی سے متعلق قوانین کا حصہ بتایا گیا مگر اصل منشا کچھ اور تھی۔ یہ قدم مسلمان دکانداروں کو نشانہ بنا کر اٹھایا گیا تھاتاکہ ان کی روزی روٹی ختم کی جاسکے۔