نئی دہلی، 16/دسمبر (ایس او نیوز /ایجنسی) آئین ہند کے ۷۵؍ سال مکمل ہونے پر پارلیمنٹ میں منعقدہ ۲؍ روزہ بحث کے دوران اپوزیشن نے موجودہ حالات میں آئین اور آئینی اصولوں کو لاحق خطرات پر روشنی ڈالی اور مودی حکومت کے طرز عمل کو بے نقاب کیا۔ اس بحث کو ملک کے سیکولر دانشوروں اور سماجی کارکنان نے بھرپور سراہا۔ دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپوروانند نے شاہین باغ احتجاج کے اہم کردار کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ اس تحریک نے آئین کو مرکزی بیانیہ کا حصہ بنانے میں کلیدی رول ادا کیا۔ جسٹس کولسے پاٹل نے اپوزیشن کی کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مودی حکومت کو موثر انداز میں آئینہ دکھایا گیا ہے۔ معروف سماجی کارکن ٹیسٹا سیتلواد نے اس بحث کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن نے واضح کر دیا ہے کہ آئین کا احترام صرف رسمی نہیں، بلکہ اس کے اصولوں کو نافذ کرنا ضروری ہے۔
جسٹس کولسے پاٹل نے پارلیمنٹ میں آئین پر ہونے والےمباحثہ میں اپوزیشن کی کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’ اپوزیشن جماعتوں بالخصوص کانگریس نے حکومت کوکامیابی کے ساتھ آئینہ دکھایا ہے ۔ پرینکا گاندھی اور اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی نے آئین کے حوالے سے انصاف، برابری، ظلم اور ناانصافی کے تعلق سے ایک ایک واقعہ کی نشاندہی کی، ہاتھرس کا حوالہ دیا ، بے روزگاری، اگنی ویر اور ملک کے موجودہ حالات میں حکومت کی ناکامیوں کو گنوایا اور یہ بتا دیا کہ یہ سب کچھ آئین کا حصہ ہے۔ ‘‘کولسے پاٹل نے کہا کہ ’’یہ بحث بہت اہم تھی اور اپوزیشن نے اچھی تیاری کی تھی اس لئے میں اسے پورے نمبر دوں گا۔ جہاں تک وزیر اعظم کے جواب کی بات ہے تو پہلی بات تو یہ کہ پارلیمنٹ میں بحث کے دوران مودی جی الہ آباد میں گنگا کی سیر کررہے تھے۔ انہوں نے بحث کے جواب میں ۸۰؍ منٹ تک جو کچھ کہا وہ صرف بچنے اور موضوع سے ہٹنے کی کوشش تھی۔‘‘ سابق جج نے اس بات پر افسوس کااظہار کیا کہ ’’آئین پر ہونے والی بحث کے جواب میں بھی انہوں نے عادت کے مطابق نفرت پھیلانے کی کوشش کی جو وزیر اعظم جیسے انتہائی اہم عہدے کے قطعا منافی ہے۔ حکومت کا کام ذمہ داری سے بچنا اورںادھر ادھر کی باتیں کرنا نہیں بلکہ ذمہ داری ادا کرنا ہے۔ اس لئے اپوزیشن کو اپنا یہ کام مسلسل کرنا ہوگا اور اسی طرح حکومت کو آئینہ دکھاتے رہنا ہوگا۔‘‘
پروفیسر اپوروانند نے آئین کے زیر بحث آنے کا کریڈٹ شاہین باغ کے تاریخی احتجاج کو دیا اور کہا کہ’’ میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ گزشتہ دس گیارہ سال میں آئینی حقوق پامال کئے جانے کے باوجود آئین اتنا زیادہ موضوع بحث کبھی نہیں تھا۔ یہ خوش آئند ہے اور اس میں شاہین باغ ایک طرح سے ٹرننگ پوائنٹ ہے۔ ‘‘
انہوں نے کہا کہ ’’ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ آئین مجموعہ ہے انصاف، یکجہتی، مساوات اور برابری کا ۔ اگر اس میں کہیں سے کوئی کمی آتی ہے تو اس کی نشاندھی اپوزیشن کی ذمہ داری اور اصلاح حکومت کا فرض ہے۔ ‘‘ آئین پر بحث کے اپوزیشن کے مطالبےاوراس میں کامیابی کا خیر مقدم کرتے ہوئے پروفیسر اپوروانند نے کہا کہ ’’ اپوزیشن نے اچھی پہل کی ہے۔ لیکن محض ۲؍دن کی پارلیمانی بحث کافی نہیں ہے اپوزیشن کو سڑک پر رہ کر بھی حکومت کو یہ باور کراتے رہنا ہوگا کہ وہ حکومت کو من مانی کا موقع نہیں دے گی۔‘‘ انہوں نے البتہ اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ’’بحث کے دوران مسلم اراکین پارلیمان نے تو مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کی نشاندہی کی لیکن کسی غیر مسلم ایم پی نے اتنی شدت سے ان معاملات کو نہیں اٹھا جتنی شدت سے اٹھانا چاہئے تھا۔ حکومت نے اس پر کچھ کہا اور نہ ہی سیکولر ازم کے حوالے سے کسی نے کچھ کہا یہ انتہائی خطرناک ہے۔‘‘
معروف سماجی خدمت گار ٹیسٹا سیتلواد نے بھی اس مباحثہ کو اچھی بحث قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’’اروند ساونت، اقراء حسن، پرینکا گاندھی اور راہل گاندھی وغیرہ نے کھل کر اپنی بات رکھی اور حکومت کو آئین کی یاد دلائی کہ اسے صرف چومنا نہیں ہے بلکہ نافذبھی کرنا ہے۔میں سمجھتی ہوں کہ پارلیمانی انتخابات اور اپوزیشن کی مضبوطی کا یہ کھلا مظاہرہ تھا۔ ‘‘انہوں نےکہا کہ’’ مگر اسی بحث پر اکتفا نہ کرتے ہوئے اپوزیشن کو سڑک پر اپنی نمائندگی درج کرانی ہوگی اور حکومت کو یہ باور کرانا ہوگا کہ نہ تو وہ حکومت کو من مانی کا موقع دے گی اور نہ ہی عوام کے آئینی حقوق پامال کئے جانے پر خاموش تماشائی بنی رہے گی، عوام نے اسے جو ذمہ داری دی ہے اس سے کسی صورت سمجھوتہ نہیں کرے گی۔‘‘