نئی دہلی ، 16/دسمبر (ایس او نیوز /ایجنسی)الہ آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شیکھر کمار یادو، جنہوں نے وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) کے ایک پروگرام میں متنازع بیان دیا تھا، جلد سپریم کورٹ کالجیئم کے سامنے پیش ہو سکتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے ان کے بیانات سے متعلق خبروں پر 10 دسمبر کو نوٹس لیتے ہوئے ہائی کورٹ سے رپورٹ طلب کی تھی۔
سپریم کورٹ کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا، ’’اعلیٰ عدالت نے جسٹس شیکھر کمار یادو کے خطاب سے متعلق اخباری خبروں کا نوٹس لیا ہے اور الہ آباد ہائی کورٹ سے اس پر تفصیلات طلب کی ہیں۔ یہ معاملہ زیر غور ہے۔‘‘
رائج طریقہ کار کے مطابق، اگر کسی جج کے بیانات پر سپریم کورٹ کالجیئم رپورٹ طلب کرتا ہے، تو جج کو بھارت کے چیف جسٹس کی قیادت میں کالجیئم کے سامنے اپنا موقف رکھنے کا موقع دیا جاتا ہے۔ سپریم کورٹ کے ذرائع کے مطابق، جسٹس یادو کو بھی اسی روایت کے تحت طلب کیا جا سکتا ہے۔
وشو ہندو پریشد کے قانونی ونگ کے ایک اجلاس میں، جسٹس یادو نے 8 دسمبر کو یکساں سول کوڈ کی حمایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس کا مقصد سماجی ہم آہنگی، صنفی مساوات، اور سیکولرزم کو فروغ دینا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ قوانین اکثریتی عوام کے مطابق کام کرتے ہیں اور یہی ہندوستان میں ہوگا۔
ان کے بیانات کے ویڈیوز سامنے آنے کے بعد سیاسی جماعتوں نے سخت ردعمل ظاہر کیا اور اپوزیشن نے ان پر ’’نفرت انگیز تقریر‘‘ کا الزام لگایا۔ مشہور وکیل پرشانت بھوشن اور غیر سرکاری تنظیم ’کیمپین فار جوڈیشل اکاؤنٹیبلیٹی اینڈ ریفارمز‘ نے چیف جسٹس سنجیو کھنہ کو خط لکھ کر جسٹس یادو کے رویے کی داخلی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔
مارکسی کمیونسٹ پارٹی کی رہنما برندا کرات نے بھی چیف جسٹس کو خط لکھا اور جسٹس یادو کے بیان کو ان کی عدالتی حلف کی خلاف ورزی قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ایسے افراد کے لیے عدلیہ میں کوئی جگہ نہیں ہونی چاہیے اور سپریم کورٹ سے کارروائی کا مطالبہ کیا۔ بار ایسوسی ایشن آف انڈیا نے بھی ایک قرارداد کے ذریعے جسٹس یادو کے بیان کی مذمت کی اور ان سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا۔